سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا متعدد اراضی کا مالک شخص اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے زکاۃ کا مال لے سکتا ہے؟

222551

تاریخ اشاعت : 28-11-2015

مشاہدات : 2859

سوال

سوال: جب میری مالی حالت اچھی تھی تو میں نے متعدد اراضی خریدی تھیں، لیکن اب میری حالت کافی پتلی ہو چکی ہے، یہاں تک کہ مجھ سے اب بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں، تو کیا میں اپنے بھائیوں یا کسی اور سے زکاۃ وصول کر سکتا ہوں؟ یا مجھے ان زمینوں کو بیچ کر اپنی ضروریات پوری کرنی چاہییں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رشتہ داروں کو زکاۃ ادا کرنا دیگر افراد کو زکاۃ ادا کرنے سے افضل ہے، کیونکہ رشتہ دار کو صدقہ دینا نیکی  اور صلہ رحمی ہے، تاہم اگر ان رشتہ داروں کا خرچہ زکاۃ دینے والے پر لازم بنتا ہے تو پھر انہیں زکاۃ نہیں دی جا سکتی، بلکہ  یہ رشتہ دار اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے نفقہ کی مد میں سے اپنا خرچہ وصول کرینگے۔

اور اگر کسی رشتہ دار کا نفقہ  زکاۃ ادا کرنے والے پر لازم نہیں ہے مثلاً چچا اور بھائی وغیرہ تو پھر  انہیں زکاۃ کے مستحق ہونے کی صورت میں زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (50640) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:
جس کسی شخص کے پاس ایسی اشیاء یعنی زمین مکانات وغیرہ  موجود ہوں جنہیں فروخت کر کے یا کرایے پر دے کر اپنی ضروریات پوری  کر سکتا ہو تو ان کا کچھ حصہ فروخت کر کے  یا انہیں کرائے پر دے کر اپنی اور اہل و عیال کی ضروریات پوری کرے، لیکن زکاۃ وصول نہ کرے، کیونکہ وہ زکاۃ کا مستحق نہیں ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میرے ایک دوست نے اپنے لیے مکان خریدا، اور اس کی قیمت تین لاکھ ریال یا اس سے زیادہ تھی، لیکن پوری قیمت ادا نہیں  کر سکا  جس کی وجہ سے تقریباً 50 ہزار ریال کا مقروض ہے، تو کیا اپنا قرض چکانے کیلئے مسلمانوں کی طرف سے ملنے والی زکاۃ لے سکتا ہے؟ یاد رہے کہ اس کے پاس زمین اور پرانا مکان بھی موجود ہے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر نیا گھر تجارت کیلئے خریدا ہے، یا گھر تو اس کے پاس پہلے ہی موجود ہے لیکن نیا مکان دنیا کمانے کیلئے لیا ہے تو یہ شخص زکاۃ کا مستحق نہیں ہے، اسے چاہیے کہ اپنا نیا مکان فروخت کر کے اپنا قرض چکائے، یا کسی اور ذریعے سے رقم حاصل کرے، کیونکہ یہ شخص فقیر نہیں ہے، کیونکہ اس کے پاس اپنا مکان ہے، وہ نیا  مکان فروخت کر دے، اور اپنا قرض چکائے، بچ جانے والی رقم اپنی دیگر ضروریات میں فروخت کردے، کیونکہ اس کے پاس زمین ، نیا مکان، اور رہائشی گھر موجود ہے وہ فقیر نہیں ہے۔
زکاۃ وصول کرنے والے کیلئے فقیر ہونا لازمی ہے، یعنی اس کے پاس ایسی کوئی چیز نہ ہو جس سے اپنی ضروریات پوری کرے، اور زکاۃ  لینے کی نوبت نہ آئے، لیکن اگر اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ملازمت، یا پراپرٹی وغیرہ کی شکل میں ذرائع معاش حاصل ہیں تو اسے زکاۃ نہیں دی جائے گی" انتہی
http://www.binbaz.org.sa/mat/13968 

مزید کیلئے سوال نمبر: (146372) کا جواب ملاحظہ کریں۔

چنانچہ اس بنا پر:
سائل کیلئے اپنی ملکیتی زمین فروخت کر کے یا اسے کرائے پر دیکر  زمین  کسی بھی منافع بخش کام میں لگائے اور حاصل ہونے والے منافع سے اپنی اور اہل خانہ کی ضروریات پوری کرے، اور زکاۃ وصول نہ کرے، کیونکہ ایسا شخص زکاۃ کا مستحق نہیں ہے۔

اور اگر وہ کمانے کی طاقت رکھتا ہے تو پھر اس کیلئے زکاۃ وصول کرنا مزید سختی سے منع ہو جائے گا۔

ہم نے پہلے سوال نمبر: (146363) کے جواب میں یہ بیان کیا ہے کہ  کسی محنت مزدوری کرنے کی استطاعت رکھنے والے شخص  کو زکاۃ نہیں دی جا سکتی کیونکہ  اسے فقیر نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ وہ محنت مزدوری کر کے کھا پی سکتا ہے۔

سائل کی عمر 40 سال ہے، اس کے پاس اراضی بھی ہے، تو ایسے جوان لوگوں کو  دوسروں کے مال پر نظر نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ خود محنت کر کے کمانا چاہیے، تا کہ اپنے اور اہل خانہ کی ضروریات خود پوری کرے، اور لوگوں  کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرمندہ نہ ہو۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب