الحمد للہ.
یہ بات سب کے علم میں ہے کہ پراپرٹی کی آج کل صورت حال ماضی کے صورت حال سے بہت مختلف ہے کہ لوگ اس میں بہت زیادہ سرمایہ کاری اور خریدو فروخت کرتے ہیں، اور پراپرٹی کی ملکیت کی کچھ صورتیں ہیں اور انہی صورتوں کے بدلنے کی وجہ سے زکاۃ کا حکم بھی بدل جاتا ہے۔
پراپرٹی سے یہاں مراد یہ ہے کہ: انسان کی ملکیت میں زمین ہو یا ایسی جگہ ہو جس پر گھر، کوٹھیاں، کثیر منزلہ عمارتیں، فلیٹ، دکانیں، پٹرول پمپ اور ڈیرے وغیرہ بنے ہوئے ہوں۔
پراپرٹی کی زکاۃ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
1-اس حوالے سے یہ بنیادی اصول ہے کہ: پراپرٹی پر بنیادی طور پر زکاۃ فرض نہیں ہوتی، لہذا جب تک پراپرٹی تجارت کے لیے نہ ہو اس وقت تک اس میں زکاۃ واجب نہیں ہو گی۔
2-کوئی بھی ایسی پراپرٹی جو انسان کی ذاتی رہائش یا کسی بھی ذاتی استعمال کے لیے ہو جیسے کہ گودام وغیرہ، اس میں بھی تمام علمائے کرام کے مطابق زکاۃ فرض نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں پراپرٹی ذاتی استعمال کی چیزوں میں شامل ہو گی، اور جو چیز ذاتی استعمال کے لیے ہو اس میں متفقہ طور پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی۔
جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (224770 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ذاتی استعمال کی نیت چاہے پراپرٹی خریداری کے وقت تھی، یا بعد میں بنی تو جیسے ہی ذاتی استعمال کی نیت بنی تو پراپرٹی زکاۃ کے مال سے نکل گئی، چاہے ذاتی استعمال میں کئی سال تک رہے ، تو جب تک پراپرٹی کے مالک کی نیت ذاتی استعمال سے تجارت میں تبدیل نہیں ہوتی اس وقت تک اس پر کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
3-زرعی زمین پر بھی زکاۃ نہیں ہے، زرعی زمین کی صرف پیداوار پر عشر واجب ہوتا ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص زمین فروخت کرنے کے لیے خریدتا ہے، تو فروخت کرنے تک اس میں کاشتکاری کر لی، اور زمین پر مثلاً: کھجوریں بھی لگیں، دیگر زرعی پیداوار بھی حاصل کی تو یہ شخص عشر بھی ادا کرے گا اور زمین کی زکاۃ بھی دے گا؛ کیونکہ یہ دونوں الگ الگ حقوق ہیں، جن کے واجب ہونے کا سبب بھی الگ الگ ہے، تو دونوں میں سے کسی ایک کے پائے جانے کی وجہ سے دوسرا ساقط نہیں ہو گا۔
چنانچہ علامہ زکریا انصاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی شخص نے ذاتی استعمال کے لیے کاشتکاری ایسی زمین میں کی جو بغرض تجارت فروخت کرنے کے لیے تھی تو ان دونوں کا الگ الگ حکم ہو گا، لہذا زرعی پیداوار پر عشر ادا کرے گا، جبکہ زمین کی سامانِ تجارت کے طور پر زکاۃ ادا کرے گا۔" ختم شد
"أسنى المطالب" (1/385)
4-ایسی پراپرٹی جسے انسان نے بطور ذریعہ آمدن یعنی اس پراپرٹی کو کرائے پر دے کر یا اس سے حاصل ہونے والی پیداوار سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی ملکیت میں رکھا ہوا ہو تو اس کی قیمت پر زکاۃ نہیں ہے، زکاۃ اس سے حاصل ہونے والی کرائے وغیرہ کی آمدن پر ہے وہ بھی جب سال پورا ہو جائے۔
لہذا رہائشی مکانات، گودام، فرنشڈ گھر، ہوٹل، اور بلڈنگیں وغیرہ کرائے پر دینے کے لیے تیار کی گئی ہوں تو ان میں سب اہل علم کے ہاں زکاۃ نہیں ہے، لہذا ان تمام پراپرٹیوں کی ہر سال قیمت لگا کر اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔
جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (47760 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔
5-ایسی پراپرٹی جسے انسان تجارت کی نیت سے اپنی ملکیت میں لائے تو سب علمائے کرام کے ہاں اس میں زکاۃ واجب ہو گی۔
تجارت کی نیت سے مراد یہ ہے کہ: انسان پراپرٹی کو اپنی ملکیت میں داخل کر کے اس سے کمانا اور نفع حاصل کرنا چاہتا ہو۔
مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: تجارت کی نیت کا معنی یہ ہے کہ: وہ اس چیز کے عوض میں کمائی کرنا چاہتا ہو۔
ختم شد
"الإنصاف" (3/154)
جہاں تک صرف فروخت کرنے کی خواہش کا تعلق ہے تو ضروری نہیں کہ یہ اسے مالِ تجارت بنا دے؛ کیونکہ سامان فروخت کرنے کے بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں، جیسے کہ کسی مال سے چھٹکارا پانا، یا مخصوص مال میں دلچسپی نہیں رہتی، یا مالی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کسی چیز کو فروخت کرنا وغیرہ، جبکہ تجارت یہ ہوتی ہے کہ انسان کسی چیز سے نفع اور کمائی کی نیت سے فروخت کرے۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ایک بار ذکر کیا کہ اگر کسی شخص کے پاس خریدی ہوئی زمین ہو اور وہ اس پر تعمیر کرنا چاہتا ہو ؛ لیکن اس نے مکان بنانے کا ارادہ تبدیل کر لیا اور اسے بیچنے کا ارادہ کر لیا کیونکہ اب اسے اس جگہ کی ضرورت نہیں رہی۔ یا کسی شخص کے پاس زمینیں تھی اور وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان میں سے کسی کو فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے بارے میں کہا:
"اس شخص پر اس صورت میں یا اس سے پہلے والی صورت میں زکاۃ نہیں ہے، کیونکہ وہ ان صورتوں میں تجارت کے لئے فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا؛ کیونکہ پہلی صورت میں اس لیے فروخت کر رہا ہے کہ اب اسے اس کی ضرورت نہیں، جبکہ دوسری صورت میں اسے پیسوں کی ضرورت ہے اور وہ اپنی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فروخت کر رہا ہے، جبکہ سامانِ تجارت کے طور پر زمین فروخت کرنے والا نفع حاصل ہونے کی انتظار میں رہتا ہے لہذا تاجر شخص زمین اپنے پاس نفع کمانے کی غرض سے ہی رکھتا ہے۔" ختم شد
"فتح ذي الجلال" (6/173)
6-اگر کسی شخص نے پراپرٹی خریدی لیکن خریداری کے وقت تجارت کی یقینی نیت نہیں تھی، یا کوئی بھی نیت نہیں تھی: تو اس میں بھی زکاۃ واجب نہیں ہے۔
علامہ قرافی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی نے کوئی چیز خریدی لیکن خریدتے ہوئے اس کی کوئی نیت نہیں تھی ، تو اسے ذاتی استعمال کے لیے شمار کیا جائے گا؛ کیونکہ یہی اصل ہے۔" ختم شد
" الذخيرة "(3/18)
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک آدمی کے پاس زمین تھی اور اس زمین کے متعلق اس کی نیت بدلتی رہی، اب اسے نہیں معلوم کہ وہ اس زمین کو بیچے گا، یا آباد کرے گا، یا کرائے پر دے گا، یا پھر خود رہائش اختیار کرے گا، تو کیا سال گزرنے پر اس زمین کی زکاۃ ادا کرے گا؟
تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا:
"جب تک اس زمین کے بارے میں اس کی پختہ نیت نہیں ہے کہ یہ تجارت کے لیے ہے اس وقت اس پر زکاۃ سرے سے ہے ہی نہیں؛ کیونکہ اس شخص کی نیت اس زمین کے بارے میں یقینی نہیں ہے، اور اگر کسی چیز کے بارے میں ایک فیصد بھی تردد پایا جائے تو اس میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی۔" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن عثیمین"(18/232)
7- اگر کوئی شخص پراپرٹی ذاتی استعمال اور رہائش کے لیے خریدے، اور پھر بعد میں اس کی نیت تجارت کی بن جائے تو اس میں زکاۃ واجب ہونے کے متعلق اختلاف ہے۔
اور پہلے اس موقف کو راجح قرار دے چکے ہیں کہ اس میں زکاۃ واجب ہو گی۔
8- اگر کسی شخص نے پراپرٹی تجارت کی نیت سے حاصل کی، پھر اس نے اپنی نیت بدل لی اور اسے ذاتی استعمال میں رکھنے کا ارادہ کیا، یا کرائے پر دینے کی نیت کی تو پھر اس میں زکاۃ واجب نہیں ہے۔
کیونکہ تجارت کی نیت سارا سال رکھنا شرط ہے، چنانچہ اگر سال پورا ہونے سے پہلے اپنی نیت تبدیل کر لے تو پھر اس سے زکاۃ ساقط ہو جائے گی۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی شخص کے پاس موجود مالِ تجارت کو ذاتی استعمال میں لانے کی نیت کر لے تو تمام علمائے کرام کے متفقہ موقف کے مطابق اسے ذاتی استعمال کی چیز قرار دیا جائے گا۔" ختم شد
"المجموع " (6/ 49)
9- اگر کوئی شخص پراپرٹی کو ذاتی استعمال کے ساتھ تجارت کی نیت سے حاصل کرے، یا تجارت کے ساتھ ذاتی استعمال کے لیے حاصل کرے تو یہاں بنیادی نیت کا اعتبار ہو گا۔ چنانچہ اگر کوئی شخص ذاتی استعمال کے لیے کوئی چیز خریدے اور ذیلی نیت یہ رکھے کہ اگر اس چیز کا کسی نے اچھا نفع دیا تو فروخت بھی کر دے گا، تو اس میں بھی زکاۃ واجب نہیں ہے۔
اور اگر کوئی شخص سامان تجارت کی نیت سے حاصل کرے، اور اسے فروخت ہونے تک ذاتی استعمال میں لاتے ہوئے فائدہ بھی اٹھائے تو اس پر ہر سال زکاۃ واجب ہو گی، تا آں کہ وہ چیز فروخت ہو جائے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص کسی چیز کو فروخت کرنے سے پہلے محدود مدت کے لیے ذاتی استعمال میں رکھنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس میں بھی سامانِ تجارت کی طرح زکاۃ واجب ہو گی؛ کیونکہ یہاں ابتدا میں ذاتی استعمال کی نیت اس مال کو تجارت کے لیے تیار کیے جانے سے متصادم نہیں ہے۔
10- اگر کوئی پراپرٹی ابھی صرف تعمیراتی مرحلے میں ہو اور یہ چیز تجارت کی غرض سے بنائی جا رہی ہو، تو پھر اس میں زکاۃ واجب ہے، چاہے وہ ابھی برائے فروخت پیش کر دی گئی ہو یا تعمیر مکمل ہونے کے بعد اسے فروخت کرنا ہو ، اس کی زکاۃ ادا کرنے کے لیے موجودہ وقت پر اس کی مارکیٹ ویلیو کو دیکھا جائے گا۔
11- ایسی پراپرٹی جس کا مالک اسے فروخت کرنے کے لیے قیمت زیادہ ہونے کے انتظار میں ہو تو اس پر ہر سال زکاۃ اس کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق واجب ہو گی، چاہے سالہا سال وہ پراپرٹی پڑی رہے۔
لہذا اگر کوئی شخص پراپرٹی اس لیے خریدتا ہے کہ مستقبل بعید میں نفع کمانے کے لیے فروخت کرے گا، تو اس سے زکاۃ ساقط نہیں ہو گی۔
اسی میں شہری آبادی سے دور ہاؤسنگ سوسائٹی کی خریداری بھی شامل ہے کہ جب لوگوں کو مستقبل بعید میں ضرورت پڑے گی اور اس کا ریٹ بڑھ جائے گا تو میں اسے فروخت کروں گا، تو زمین کی مستقبل بعید میں فروختگی کی نیت ا س زمین پر زکاۃ واجب کرنے کے لیے کافی ہے، زمانہ بعید میں فروختگی کی نیت سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؛ کیونکہ یہ زمین خریدی ہی تجارت کی نیت سے جا رہی ہے، اور اس کی خریداری کا مقصد دولت میں اضافہ ہے۔
فقہائے کرام ایسے تاجر کو "التاجر المتربص" یعنی گھات لگا کر تیار بیٹھنے والا تاجر کہتے ہیں، اور ایسے تاجر کے بارے میں صحیح ترین موقف وہی ہے جو جمہور علمائے کرام کا ہے کہ اس پر ہر سال زکاۃ واجب ہے۔
12-ایسی پراپرٹی جو انسان اپنے مال کو محفوظ بنانے کے لیے خریدتا ہے، اس میں بھی زکاۃ نہیں ہے؛ الا کہ یہ شخص زکاۃ سے فرار ہونے کے لیے ایسا کرے تو اس پر زکاۃ واجب ہو گی۔
13- اگر کسی نے کوئی کمرشل جگہ خریدی اور جس پیسے سے کمرشل جگہ خریدی تھی اس پر زکاۃ کا سال پورا ہونے کے بعد بھی یہ جگہ اپنے قبضے میں نہیں لی؛ تو اس جگہ کی مارکیٹ ویلیو پر زکاۃ واجب ہے؛ کیونکہ خرید و فروخت کا معاہدہ ہوتے ہی پراپرٹی کی ملکیت خریدار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، جبکہ قبضہ خریدار جب چاہے لے سکتا ہے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک شخص نے کمرشل زمین مخصوص رقم میں خریدی ہے۔ واضح رہے کہ ابھی تک اس نے زمین پر قبضہ نہیں لیا ہے، بلکہ اس کے پاس اس کی رجسٹری بھی نہیں ہے، تو کیا اس پر زکاۃ واجب ہو گی؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں اس زمین کے مالک پر اس زمین کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے، چاہے اس نے اس زمین کی رجسٹری ابھی تک وصول نہیں کی؛ کیونکہ خرید و فروخت ہو چکی ہے۔ اس لیے اس جگہ کی زکاۃ سامانِ تجارت کے حساب سے ادا کرے گا۔ لہذا جب زکاۃ کا سال پورا ہو گا تو اس وقت اس کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق اس کی قیمت لگائی جائے گی، اور اس کی قیمت میں سے چالیسواں حصہ زکاۃ ادا کی جائے گی۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین " (18/ 234)
14- گروی رکھی ہوئی پراپرٹی : اگر یہ پراپرٹی بھی تجارت کے لیے ہے تو اس پر بھی زکاۃ واجب ہے۔
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر آپ نے یہ پراپرٹی تجارت کے لیے بنائی تھی اور اب وہ گروی رکھی ہوئی ہے تو اس کی زکاۃ آپ کے ذمے ہے، اور اگر یہ پراپرٹی گروی تو رکھی ہوئی ہے لیکن وہ تجارت کے لیے نہیں ہے، آپ قرض ادا کر دیں گے تو وہ آپ کو رہائش یا کرائے پر دینے کے لیے واپس مل جائے گی تو اس میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (15/43)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (99311 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
15- اگر کسی پراپرٹی کے کئی شرکا ہیں تو جمہور کے نزدیک ہر شریک اپنے اپنے حصے کی زکاۃ ادا کرے گا، اگر ہر حصہ نصاب کے برابر ہو تو۔
الشیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی پراپرٹی کے مشترکہ شرکا میں سے ہر ایک پر زکاۃ واجب ہونے کے لیے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا پراپرٹی کا حصہ اتنا ہو جو بذات خود زکاۃ کے نصاب تک پہنچ جائے، یا اسی شریک کے ذاتی کسی اور ایسے مال کے ساتھ مل کر نصاب پورا کر دے جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہو۔" ختم شد
" فتوى جامعة في زكاة العقار "صفحہ: 12
پہلے ہم سوال نمبر: (147855) میں ذکر کر آئے ہیں کہ:
شافعی موقف کے مطابق مشترکہ پراپرٹی کی صورت میں تمام شرکا کے مجموعی سرمائے کو دیکھا جائے گا، ہر شریک کے حصے کو الگ سے نہیں دیکھا جائے گا، لہذا اگر پراپرٹی کی مجموعی قیمت نصاب کے برابر پہنچتی ہے تو ان میں سے ہر شریک پر زکاۃ واجب ہے؛ چاہے اس کا حصہ بذات خود نصاب کو نہیں پہنچتا۔
اس موقف کو اسلامی فقہ اکادمی نے اپنایا ہے، اور اسی کی طرف ابن عثیمین رحمہ اللہ مائل ہیں۔
16- رفاہِ عامہ مثلاً: فقرا کے لیے وقف پراپرٹی پر زکاۃ واجب نہیں ہے؛ کیونکہ یہاں کسی کی ملکیت ہی نہیں ہے۔ اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (118309 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
17-پراپرٹی کی قیمت گرنے یا بڑھنے سے زکاۃ کے وجوب پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر اس کی قیمت لگتی ہے تو اس پر زکاۃ واجب ہو گی۔ جمہور علمائے کرام کا یہی موقف ہے؛ کیونکہ سامانِ تجارت میں زکاۃ کی فرضیت کی اساس یہ ہے کہ اس سامان کو تجارت کے لیے تیار کیا گیا ہو، جیسے سونا چاندی وغیرہ اب حقیقی طور پر ان کی مالیت میں اضافہ ہو یا نہ ہو، اور چاہے ان میں نقصان ہو یا نفع ہو؛ ہر حالت میں زکاۃ واجب ہو گی۔
لہذا اگر کسی چیز کا مارکیٹ میں مندا چل رہا ہو تو اس مندے کی وجہ سے زکاۃ واجب ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، چنانچہ جس چیز کی بھی مارکیٹ میں قیمت لگے اور اس چیز کی خرید و فروخت ممکن ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہے۔
فتاوی دائمی فتوی کمیٹی: (8/102) میں ہے کہ:
"جب بھی فروخت کے لیے پیش کی جانے والی زمین پر سال مکمل ہو گا تو اس پر زکاۃ واجب ہو گی؛ کیونکہ یہ زمین سامانِ تجارت ہے، اور ہر سال اس کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت لگائی جائے گی اور پھر مجموعی رقم کا چالیسواں حصہ زکاۃ ادا کی جائے گی، چاہے مارکیٹ میں مندا چل رہا ہو یا تیزی ہو؛ کیونکہ بیع اور تجارت کے لیے تیار کیے جانے والے سامان پر زکاۃ واجب قرار دینے والے دلائل عام ہیں۔" [ابن باز، آل الشیخ، الفوزان، الغدیان]
الشیخ عبد الرحمن البراک کہتے ہیں:
"مارکیٹ میں مندا ہونے کی وجہ سے زکاۃ ساقط نہیں ہو گی، بلکہ زکاۃ کی مقدار کم ہو جائے گی؛ کیونکہ جب کسی زمین کی مارکیٹ ویلیو کس قدر بھی کم ہو اس کی قیمت ضرور لگتی ہے، اور اسی کے مطابق زکاۃ ادا کرنا ہو گی۔" ختم شد
لیکن اگر پراپرٹی کی مارکیٹ اتنی مندی ہو کہ مالک مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے رکھے بھی سہی تو کوئی اسے خریدنے والا خریدار نہیں ملتا تو کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جب فروخت کرے گا تو ایک سال کی زکاۃ ادا کرے گا۔
18- پراپرٹی حصص کی زکاۃ بھی سامانِ تجارت کی طرح ہی ادا کی جائے گی؛ کیونکہ پراپرٹی کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں زمین کی خریداری تجارت کی غرض سے کرتی ہیں۔
اس لیے اگر کسی شخص نے کسی پراپرٹی کمپنی کے حصص خریدے ہوئے ہیں تو وہ اس کمپنی میں اپنے حصص کی قیمت مارکیٹ ویلیو کے مطابق لگائے اور اس کی زکاۃ کے لیے چالیسواں حصہ ادا کرے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (74989 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
19- ضبط شدہ جائیداد اور نادہندہ پراپرٹی کے حصص: ان پر کوئی زکاۃ نہیں ہے، اور انہیں "مالِ ضمار" کے حکم کے تحت رکھا جاتا ہے۔
"چنانچہ ایسی زمین جو ہاؤسنگ سوسائٹی کے منصوبوں میں سوسائٹی کی سہولیات جیسے کہ پبلک بلڈنگ اور اسکول وغیرہ کے لیے مختص کر دی جاتی ہے، اور سوسائٹی کے مالک کو اس مختص شدہ زمین کو فروخت کرنے سے روک دیا جاتا ہے تو اس میں زکاۃ واجب نہیں ہے، الا کہ سرکاری ادارہ یہ فیصلہ کر دے کہ انہیں اس زمین کی ضرورت نہیں ہے ، اور پھر سوسائٹی کے مالک کو اس زمین کی فروختگی کی اجازت دے دی جائے ، تو جس تاریخ سے اجازت ملے اس کے بعد سے اس زمین کے لیے زکاۃ کا سال نئے سرے سے شمار کیا جائے گا۔" ختم شد
" المسائل المستجدة في الزكاة " (ص 87)
اسی طرح مسائل اور جھگڑوں والی پرپراٹی کمپنیوں کے حصص کا معاملہ ہے: اس کی وجہ کمپنی کی طرف سے استعمال کیے جانے والے غیر قانونی راستے اور حیلے ہو سکتے ہیں، بسا اوقات ملکی قوانین آڑے آ جاتے ہیں، یا پھر متعلقہ زمین کے کیس اور پھڈے چل رہے ہوتے ہیں، بہ ہر حال کچھ بھی ہو ایسی پراپرٹی کے حصص کہ مالک ان کی خرید و فروخت نہ کر سکتا ہو تو اس میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
20- جس وقت پراپرٹی کی زکاۃ کا سال مکمل ہو اس وقت زمین کی موجودہ مارکیٹ ویلیو دیکھی جائے گی ، چاہے وہ قیمتِ خرید سے زیادہ ہو یا کم ، اور اسی کے مطابق زکاۃ کا حساب لگایا جائے گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (65515 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
21- زمین کی خریداری سے زکاۃ کے مالی سال کا آغاز نہیں ہو گا، بلکہ یہاں اس مال کا سال معتبر ہو گا جس سے یہ زمین خریدی گئی ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (161816 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم