جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

كيا حاصل كردہ يا مستحق شدہ كرايہ پر بھى زكاۃ واجب ہے ؟

47760

تاریخ اشاعت : 03-03-2011

مشاہدات : 5646

سوال

ہمارى ايك تجارتى ماركيٹ ہے جو ہم نے ( 72 ) ہزار سالانہ پر كرايہ ميں دے ركھى ہے كيا اس ميں ہم پر زكاۃ ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ يہ كرايہ ہم يكمشت حاصل كرتے ہيں، اور سال گزرنے سے قبل ہى خرچ كر ڈالتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كرايہ كے ليے بنائى گئى جائداد پر زكاۃ نہيں ہے، بلكہ زكاۃ تو اس كرايہ پر ہے جبكہ اس ميں دو شرطيں پائى جائيں:

پہلى شرط: وہ كرايہ نصاب تك پہنچ جائے.

دوسرى شرط: اس پر سال گزر جائے.

اور يہ سال كرايہ كا معاہدہ ہو جانے سے شروع ہو گا، چاہے كرايہ پيشگى ليا جائے يا پھر سال كے آخر ميں.

اگر اس نے سال كے شروع ميں ہى كرايہ حاصل كر ليا اور اس پر سال گزر جائے تو اس ميں زكاۃ واجب ہے، يا پھر اگر اس ميں سے كچھ خرچ كر ليا اور باقى بچنے والى رقم پر زكاۃ واجب ہو گى.

اور اگر اس نے سال كے آخر ميں كرايہ وصول كيا تو اس پر زكاۃ واجب ہے كيونكہ معاہدہ سے ليكر اس پر سال گزر چكا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور اگر اس نے گھر دو برس كے ليے چاليس دينار ميں كرايہ پر ديا، تو وہ معاہدہ كے وقت سے ہى اس كرايہ كا مالك بن گيا ہے، سال گزرنے پر اس كى زكاۃ واجب ہے. اھـ

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 4 / 271 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے ايسے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا جس نے جائدہ كرايہ پر دى اور ايك سال كا كرايہ پيشگى وصول كر ليا اور اس كے ساتھ اپنا كچھ قرض ادا كيا تو كيا اس كے ذمہ اس كرايہ كى زكاۃ واجب ہو گى؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اس طرح كے كرايہ ميں جو كرايہ دار سے پيشگى لے كر اس كے ساتھ اپنا قرض ادا كيا گيا ہو اس ميں كوئى زكاۃ نہيں، كيونكہ اس پر آپ كى ملكيت ميں سال نہيں گزرا، اور اس ميں كرايہ كے معاہدہ كے وقت سے ليكر آخر سال تك كا اعتبار ہو گا، اور اگر آپ سال ختم ہونے سے قبل كرايہ وصول كريں اور اس سے اپنا قرض ادا كر ديا يا اسے گھريلو ضروريات ميں صرف كر ديا تو اس ميں كوئى زكاۃ نہيں ہے. اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 14 / 177 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا كرايہ كے ليے تيار كى گئى جائداد اور عمارتوں ميں زكاۃ ہے؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اس پر اس جائداد ميں كوئى زكاۃ نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان پر اس كے غلام اور نہ ہى اس كے گھوڑے ميں كوئى صدقہ ہے "

بلكہ اس كے كرايہ اور اجرت پر جب معاہدے سے سال گزر جائے تو اس ميں زكاۃ ہو گى.

اس كى مثال يہ ہے كہ:

اس نے اس گھر كو دس ہزار ميں كرايہ پر ديا، اور سال بعد دس ہزار وصول كيا، تو اس دس ہزار ميں اس پر زكاۃ واجب ہوگى كيونكہ اس كے معاہدہ پر سال گزر گيا ہے.

اور ايك دوسرے شخص نے اپنا گھر دس ہزار ميں كرايہ پر ديا، اور اس ميں سے پانچ ہزار معاہدہ كرتے وقت پيشگى وصول كر ليا اور اسے دو ماہ ميں ہى خرچ كر ديا، اور باقى پانچ ہزار نصف سال گزرنے كے بعد وصول كيا اور اسے بھى دو ماہ ميں خرچ كر ديا، اور سال گزرنے پر اس كے پاس كرايہ ميں سے كچھ بھى نہيں تو اس كے ذمہ زكاۃ نہيں ہو گى، كيونكہ اس پر سال پورا نہيں ہوا، اور زكاۃ كے ليے سال پورا ہونا ضرورى ہے. اھـ

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 / 208 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب