الحمد للہ.
محترمہ سائلہ آپ کے سوال سے بالکل واضح ہو رہا ہے کہ آپ طہارت کے معاملات میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں؛ کیونکہ آپ اسلام میں داخل ہونے کے لیے غسل کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہیں حالانکہ آپ خود مسلمان بھی ہیں۔ واضح رہے کہ وسوسوں کی بیماری کافی شدید نوعیت کی ہے، ہماری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو عافیت سے نوازے۔
علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا وسوسوں کی بھی کوئی دوا ہے؟
توانہوں نے جواب دیا:
"بالکل اس کی بہت ہی مفید دوا ہے کہ وسوسے کی جانب بالکل بھی توجہ نہ دیں۔
اگر دل میں کسی قسم کا شک اور تردد ہو بھی سہی تو عدم توجہ کی وجہ سے یہ شک اور تردد کچھ ہی دیر میں زائل ہو جاتا ہے، شک کی بیماری کا کامیاب علاج کرنے والوں نے اس کا علاج اسی طرح کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان شکوک و شبہات پر توجہ دے تو یہ وسوسے انسان کو پاگل پن تک لے جاتے ہیں، بالکل پاگلوں سے آگے بڑھا دیتے ہیں، ہم نے وسوسوں میں مبتلا افراد کا یہ حال اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، انہوں نے ان وسوسوں پر توجہ دی اور وسوسے ڈالنے والے شیطان کے پیچھے لگے رہے کہ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے متنبہ بھی کیا ہے اور فرمایا: (وضو کے بارے میں وسوسے ڈالنے والے شیطان سے بچو جسے ولہان کہا جاتا ہے۔) اس شیطان کو ولہان اس لیے کہتے ہیں کہ یہ شیطان شدت کے ساتھ لہو میں مبتلا کر دیتا ہے۔ نیز صحیح بخاری اور مسلم میں میری ذکر کردہ بات کی تائید ملتی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص بھی وسوسوں میں مبتلا ہو تو وہ اللہ کی پناہ چاہے اور وسوسے کہ طرف توجہ نہ دے۔
دیکھیں یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت ہی مفید علاج بتلایا ہے اور آپ وحی کے بغیر کوئی لفظ نہیں بولتے، یہاں یہ بھی واضح رہے کہ جو شخص بھی اس کامیاب علاج سے محروم رہا وہ ساری خیر سے محروم ہے؛ کیونکہ متفقہ طور پر وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، ملعون شیطان کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ مومن کو گمراہی اور حیرانگی میں مبتلا کر دے، مسلمان کی زندگی میں کدورت گھول دے، نفسیاتی امراض کے اندھیروں میں ڈال کر راہ راست سے اتنی دور تک روکے رکھے کہ انسان دائرہ اسلام سے ہی خارج ہو جائے اور اسے پتہ ہی نہ چلے کہ شیطان تو ان کا بہت گہرا دشمن ہے تم اسے اپنا دشمن سمجھو" ختم شد
" الفتاوى الفقهية الكبرى " (1 / 149)
اللہ کی بندی ! آپ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اجباری نوعیت کے وسوسے بذات خود عام بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہیں، اس کا ادویات کے ذریعے علاج بھی مشہور ہے، اسی طرح سلوکیات کے ذریعے کیا جانے والا علاج بھی مفید ہوتا ہے، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں طرح کے طریقہ علاج کو ایک ساتھ لیکر چلنا مریض کے لیے مفید ہوتا ہے، اس سے امید ہوتی ہے کہ انسان کو جلد شفا مل جائے، اس لیے اگر آپ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں تو ان شاء اللہ یہ آپ کے لیے مفید ہو گا۔
ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ وسوسوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنے سے وسوسے زائل ہو جاتے ہیں، اور اگر انسان ان کی طرف توجہ نہ کرے تو تب بھی وسوسے ختم ہو جاتے ہیں، اس لیے آپ سوال نمبر: (20159 ) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
جبکہ بیداری کی حالت میں منی خارج ہونے کے بارے میں شک پیدا ہو تو اس پر غسل کرنا واجب نہیں ہوتا؛ کیونکہ شک کی وجہ سے کوئی حکم مرتب نہیں ہوتا۔
اور اگر کوئی شخص نیند سے بیدار ہو اور کپڑوں میں گیلا پن محسوس کرے تو اس کی تین میں سے ایک حالت ہو گی، یہ تینوں حالتیں ہم سوال نمبر: (22705 ) کے جواب میں بیان کر چکے ہیں ان کا مطالعہ لازمی کریں۔
اس حالت میں ہم نہیں سمجھتے کہ آپ احتیاط کرتے ہوئے غسل کریں؛ کیونکہ احتیاط وہ شخص کیا کرتا ہے جسے وسوسوں کی بیماری نہ ہو، جبکہ وسوسوں میں مبتلا شخص اگر احتیاط کرنے لگے تو اس کے وسوسوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا، اور انسان اپنے آپ کو بہت زیادہ مشقت میں ڈال لے گا، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان ہر کام میں ہی شک کرنے لگے اور سب معاملات بگاڑ بیٹھے، وسوسوں میں مبتلا افراد کی یہی حالت ہوتی ہے ، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ فرمائے۔
جبکہ غسل جنابت اور حیض کے بعد والے غسل کو ایک نیت سے کرنا جائز ہے، جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1 / 162) میں کہتے ہیں:
"جس وقت غسل کے موجب بننے والے دو اسباب اکٹھے ہو جائیں جیسے کہ حیض اور جنابت اسی طرح دو شرمگاہوں کا آپس میں ملنا اور انزال ہو جانا، ان دونوں سے طہارت کی نیت سے ایک ہی غسل کرے تو کافی ہو جائے گا۔ اکثر اہل علم اس کے جواز کے قائل ہیں، انہی قائلین میں عطا، ابو زناد، ربیعہ، مالک، شافعی، اسحاق اور اصحاب الرائے شامل ہیں۔" ختم شد
جبکہ اسلام قبول کرنے کے لیے غسل آپ کے لیے تو ویسے ہی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ آپ اللہ کے فضل سے پہلے ہی مسلمان ہیں، آپ دائرہ اسلام سے باہر گئی ہی نہیں ہیں، لیکن شیطان نے آپ کے دل میں وسوسے اس لیے پیدا کر دئیے ہیں کہ آپ کو سخت مشقت کا سامنا کرنا پڑے اور آپ کے لیے دین پر چلنا مشکل ہو جائے، اس لیے اس قسم کے وسوسوں پر ذرا توجہ نہ دیں؛ کیونکہ ان کے نتائج بہت بھیانک ہیں۔
واللہ اعلم