الحمد للہ.
اول:
سب سے پہلے آپ کی ذمے داری بنتی ہے کہ اپنے بیٹے پر حسب قاعدہ خرچ کریں، اس میں کھانے پینے، پہننے ، علاج معالجہ اور پڑھائی کے تمام تر اخراجات شامل ہیں، اور اگر اس کی ماں رہائش کا انتظام اپنے ذمے نہیں لیتی تو وہ بھی آپ کے ذمے ہے۔
آپ اپنا فطرانہ اپنے بیٹے کو نہیں دے سکتے؛ کیونکہ بیٹے کے اخراجات آپ کے ذمے ہیں اور اگر اپنا فطرانہ اسے دیتے ہیں تو اس سے آپ کے ذمے واجب نفقے کی آپ کو بچت ہو گی[جو کہ سراسر غلط ہے]۔
نیز زکاۃ کا بھی وہی حکم ہے جو فطرانے کا حکم ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/ 269) میں لکھتے ہیں کہ:
"بندہ اپنی فرض زکاۃ میں سے والدین اور اولاد کو کچھ بھی نہیں دے سکتا۔ ابن المنذر ؒ کہتے ہیں کہ: تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ جب اولاد پر والدین کے اخراجات برداشت کرنا ضروری ہو تو اولاد اپنی زکاۃ والدین کو نہیں دے سکتی، اس لیے بھی کہ اگر اولاد والدین کو زکاۃ دے تو گویا اولاد والدین کا نفقہ نہیں اٹھائے گی، اور نفقہ نہ اٹھانے کا فائدہ اولاد کو ہو گا، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ اولاد نے زکاۃ والدین کو دے کر نفقے کی رقم اپنے پاس بچا لی۔
اسی طرح نہ ہی اپنی اولاد کو زکاۃ دینا جائز ہے، امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ: زکاۃ والدین، اولاد، پوتے ، دادا، دادی، اور نواسے کسی کو بھی نہیں دے سکتا۔" معمولی تبدیلی کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
دوم:
مطلقہ بائنہ کو زکاۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ مستحق بھی ہو اور اس کے اخراجات برداشت کرنے والا کوئی نہ ہو۔
جیسے کہ : "حاشیہ قلیوبی وعمیرة" (3/197) میں ہے کہ:
"جس کے اخراجات کوئی رشتہ دار یا خاونداٹھا رہا ہو تو وہ صحیح ترین موقف کے مطابق غریب نہیں ہے؛ کیونکہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، اس کا حکم ایسے ہی جیسے کوئی اتنی یومیہ کمائی کرتا ہوں جس سے اس کی ضروریات پوری ہو جائیں۔" ختم شد
جبکہ ایسی مطلقہ خاتون جس کی ابھی تک عدت پوری نہیں ہوئی ، تو نان و نفقے میں اس کا حکم بیوی والا ہی ہے، اسے زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔
اس بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (146241) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم