الحمد للہ.
اول:
اگر والد زندہ ہو تو ماموں اپنی بھانجیوں کا سرپرست اور ولی نہیں ہے
والد اگر زندہ ہو، عقل مند، مکلف اور حاضر ہو تو ماموں اپنی بھانجیوں کا سرپرست اور ولی نہیں بن سکتا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ والدین کی زندگی میں بچوں کی تربیت اور ان کی تمام تر ذمہ داری والدین پر ہی ہوتی ہے ؛ لہذا اللہ تعالی کے ہاں وہی اس ذمہ داری کے جواب دہ ہوں گے۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اُس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا: چنانچہ رعایا کا امیر، اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے اور امیر سے رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی ذمہ دار ہے اور عورت سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ توجہ کریں! تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔)
اس حدیث کو امام بخاری: (2554) اور مسلم : (1829)نے روایت کیا ہے۔
تاہم ماموں کی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اعتبار سے ذمہ داری بنتی ہے؛ چنانچہ جب اپنی ہمشیرہ کے بچوں کو کوئی غلط کام کرتے ہوئے دیکھے تو ماموں پر لازم ہے کہ انہیں غلط کام سے روکے۔
جیسے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : (جو شخص تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہ رکھے تو اپنی زبان سے روکے، اور اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔) مسلم: (49)
اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں برائی دیکھنے پر حکم دیا اور فرمایا: (تو اسے روکے) تو اس حدیث میں حکم وجوب کے لیے ہے اور اس پر ساری امت کا اجماع ہے۔ دوسری جانب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے پر کتاب و سنت کے بہت زیادہ دلائل ہیں اور اس پر امت کا اجماع بھی ہے، نیز یہ دین میں شامل خیر خواہی بھی ہے۔" ختم شد
" شرح صحيح مسلم " (2 / 22)
دوم:
کیا ماموں اپنی بہن کے بچوں کو سزا دے سکتا ہے؟
اس صورت میں ماموں کو یہ اجازت نہیں ہے کہ اپنی ہمشیرہ کے بچوں کو مارے؛ کیونکہ سزا دینے کا حق صرف والد کے پاس ہے، یا پھر وہ شخص اسے سزا دے سکتا ہے جسے بچے کے والد نے یا قاضی نے بچے کا سرپرست بنایا یا مقرر کیا ہے ۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية الكويتية" (10 / 25) میں ہے کہ:
"باپ اور ماں دونوں ہی اپنے بچوں کو باادب بنانے کے لیے سزا دے سکتے ہیں، اسی طرح وہ شخص بھی سزا دے سکتا ہے جو بچوں کا سرپرست ہے ۔۔۔
اسی طرح استاد بھی سزا دینے کی ذمہ داری سرپرست سے کشید کرے گا۔" ختم شد
تاہم اگر والد کو ماموں کے سزا دینے کے عمل کا علم ہو اور والد اس پر خاموشی اختیار کرے تو یہ ماموں کے عمل پر رضا مندی شمار ہو گا، اور یہ ایسے ہی ہو گا جیسے والد نے ماموں کو بچوں کی تربیت اور مناسب طریقے سے سزا دینے کا اختیار دے دیا ہو۔
بعض خاندانوں میں ایسے ہوتا ہے کہ ماموں کو بہت مقام و مرتبہ حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے سزا دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے، اور یہ بات لوگوں میں معروف بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ اس عمل پر کوئی منفی رد عمل بھی نہیں دیتے۔
تاہم اگر ماموں کے تادیبی عمل پر والد منفی رد عمل دے تو پھر ماموں نصیحت پر ہی اکتفا کرے، اسی طرح بچوں کے والدین کو بھی نصیحت کرے؛ کیونکہ اس وقت بچیوں کی تعلیم و تربیت انہی کی ذمہ داری ہے اور والدین ہی اپنی بچیوں کو شرعی طور پر حرام لباس سے منع کر سکتے ہیں اور سزا بھی دے سکتے ہیں۔
واللہ اعلم