الحمد للہ.
اس سے روزہ پر کچھ اثرنہیں ہوتا کیونکہ یہ قلیل مقدار روزہ دار کو کمزور نہيں کرتی ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی عنہ سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :
روزے کی حالت میں ٹیسٹ کے لیے خون حاصل کرنے کا حکم کیا ہے ؟
توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
اس طرح کے ٹیسٹ سے روزہ فاسد نہیں ہوتا بلکہ یہ معاف ہے ، اس لیے کہ یہ ضرورت کی بنا پر حاصل کیا گيا ہے ، اور نہ ہی شرعا روزہ توڑنے والی معروف اشیاء کی جنس میں شامل ہے ۔ ا ھـ
دیکھیں مجموع فتاوی ابن باز ( 15 / 274 ) ۔
اورشيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :
روزہ دارکے خون کے ٹیسٹ کا حکم کیا ہے اورکیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
ٹیسٹ کے لیے خون حاصل کرنے سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا ، کیونکہ ڈاکٹر کو مریض کے خون کے مختلف ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے لھذا اس سے روزہ نہيں ٹوٹے گا ، کیونکہ قلیل مقدار میں خون سنگی اورپچھنے جیسا بدن پراثر انداز نہيں ہوتا جس کی بنا پریہ روزہ نہيں توڑے گا ، بلکہ روزہ اصل پرہی باقی رہے گا ، ہم اسے بغیر کسی شرعی دلیل کے فاسد نہيں کرسکتے ۔
اوریہاں پر اتنی قلیل مقدار سے روزہ ٹوٹنے پر کوئي دلیل نہيں ملتی ، لیکن کسی دوسرے کوزيادہ مقدار میں خون کا عطیہ دینے کا حکم یہ ہے کہ اگرپچھنے اورسنگی کی طرح خون کی مقدار زيادہ ہو تواس سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔
لھذا اس بنا پر اگر روزہ واجب ہو توپھرزیادہ خون کا عطیہ دینا جائز نہيں ، لیکن اگر کوئي خطرناک حالت میں خون کا محتاج ہو اورغروب شمس تک صبر نہ کرسکتا ہو اورڈاکٹروں نے بھی یہ فیصلہ کیا ہو کہ یہ خون اس کے مفید اوراس کی ضرورت پوری کرے گا ، تواس حالت میں خون کا عطیہ دینے میں کوئي حرج نہيں ۔
لیکن اس حالت میں اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا اسے کھانا پینا چاہیے تاکہ اس کی قوت بحال ہوسکے ، اوربعد میں اس کے بدلے میں ایک روزہ کی قضاء کرنا ہوگي ۔ ا ھـ
دیکھیں فتاوی ارکان الاسلام صفحہ نمبر ( 478 ) ۔
واللہ اعلم .