الحمد للہ.
اول:
اس ويب سائٹ ميں بہت سے سوالات كے جوابات ميں يہ بيان كيا جا چكا ہے كہ كفار ممالك ميں بود و باش اور رہائش اختيار كرنا جائز نہيں كيونكہ اس كا آدمى كے دين پر واضح منفى اثر پڑتا ہے، اور وہ شخص شہوات و شبھات كا شكار ہو جاتا ہے، جو اس كے دين ميں فتہ و فساد كا باعث بن سكتا ہے، اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے، اور اسے برائى و منكرات ديكھنے كى عادت پڑ جاتى ہے، اور وہ اسے روكنے اور انكار كى طاقت كھو بيٹھتا ہے، جو اس كے دل ميں اس برائى كى قباحت كو كم كر ركھ ديتى ہے.
اس ليے جب اسے اپنے دين كا خطرہ محسوس ہو تو كسى مسلمان شخص كے كسى بھى كافر ملك ميں رہنا جائز نہيں.
آپ مزيد تفصيلى معلومات كے ليے سوال نمبر ( 38284 ) اور ( 13363 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اگر آپ كا خاوند گھڑيوں اور سونے والا حصہ ميں كام كرتا ہے اور اس كا ہوٹل اور اس ميں جو كچھ فروخت ہوتا ہے، اور اس ہوٹل ميں جو برائى كى جاتى ہے، اس كے ساتھ كوئى تعلق اور واسطہ نہيں تو اس كى تنخواہ حلال ہے، كيونكہ وہ ايك مباح اور جائز عمل كے عوض ميں ہے، اور كمپنى جو حرام اشياء فروخت كر رہى ہے اس كا گناہ آپ كے خاوند كے ذمہ نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام يہوديوں كے ساتھ مباح اور جائز لين دين كيا كرتے تھے، حالانكہ يہودى دوسرے حرام معاملات كا لين دين بھى كرتے تھے جن ميں رشوت، اور سود اور لوگوں كا ناحق مال كھانا بھى شامل تھا.
طبرانى نے كعب بن عجرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو آپ كے چہرہ ميں كچھ تبديلى ديكھى تو ميں نے عرض كيا: ميرے ماں باپ آپ پر قربان جائيں كيا بات ہے ميں آپ ميں تغير ديكھ رہا ہوں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" ميرے پيٹ ميں تين روز سے وہ چيز داخل نہيں ہوئى جو ايك جگر والے كے پيٹ ميں داخل ہوتى ہے "
وہ بيان كرتے ہيں: تو ميں وہاں سے نكل گيا، اور ديكھا كہ ايك يہودى اپنے اونٹ كو پانى پلا رہا ہے، تو ميں نے يہودى كے اونٹ كو اس شرط پر پانى پلايا كہ ہر ڈول كے بدلے ايك كھجور ديگا، تو ميں وہ كھجوريں لے كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ گيا "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 3271 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 20732 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .