سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

حربی کفار کے تجارتی سامان کا بائیکاٹ

20732

تاریخ اشاعت : 13-01-2005

مشاہدات : 20253

سوال

کیا یہودیوں یا یہودیوں کی ملکیتی کمپنیوں یا یہودیوں کی شراکت سے چلنے والی کمپنیوں یا ایسی کمپنیاں جس کی شاخیں اسرائیل میں بھی ہیں کے ساتھ لین دین کی عادت بنا لینا جائز ہے۔۔۔الخ ؟
آج کل بہت سے مسلمان کہتے ہیں کہ یہودیوں کے ساتھ مطلق طور پر لین دین حرام ہے، میری محدود معلومات کے مطابق تو یہ ہے کہ دور نبوی میں یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں نے جنگ لڑی تو اس وقت بھی ان کے ساتھ لین دین منع نہیں کیا، اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کی زرہ قرض کے عوض میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی، آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملے میں ہماری صحیح رہنمائی فرمائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اصل تو یہی ہے کہ یہودیوں وغیرہ کے ساتھ خریدو فروخت جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا یہودیوں کے ساتھ لین دین ثابت ہے ، چنانچہ وہ مدینہ کے یہودیوں سے خرید و فروخت قرض اور رہن وغیرہ سمیت ہمارے دین میں جائز معاملات کیلیے ان کے ساتھ لین دین کرتے تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن یہودیوں سے لین دین کیا ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امن معاہدہ تھا، اور جس یہودی نے بھی معاہدہ توڑا اسے یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر جلاوطن کر دیا گیا یا کسی مصلحت کی بنا پر چھوڑ دیا گیا۔

محارب کفار سے خریدو فروخت جائز ہونے کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے:

امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"باب ہے: مشرکوں اور اہل حرب سے خریدو فروخت کے بیان میں"
پھر اس کے بعد مندرجہ ذیل روایت بیان کی:
"عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو ایک مشرک شخص بکریاں  ہانکتا ہوا آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فروخت  کیلیے ہیں یا عطیہ  دینے کیلیے)یا فرمایا: (یا بطور تحفہ دینے کیلیے)تو اس نے جواب دیا: "فروخت کے لیے"  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خرید لی" انتہی
صحیح بخاری : (2216 )

امام نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم  کی شرح ( 11 / 41 )  میں کہتے ہیں:
"اہل ذمہ اور ان کے علاوہ دوسرے کفار کے ساتھ معاملات کرنے کے جواز پر مسلمان متفق ہیں جب تک اس [لین دین میں استعمال ہونے والی ]چیز کی حرمت ثابت نہ ہو جائے، لیکن مسلمان کے لیے اہل حرب کو اسلحہ یا لڑائی کے لیے کوئی آلہ فروخت کرنا جائز نہیں اور نہ ایسی چیز جس سے وہ اپنے دین کو مضبوط کرنے کے لیے اس سے مدد حاصل کریں ۔۔۔" انتہی

اور ابن بطال رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ:
"کفار کے ساتھ معاملات کرنا جائز ہے، لیکن ایسی کوئی چیز فروخت کرنی جائز نہیں جو اہل حرب مسلمانوں کے خلاف استعمال کریں اور اس سے مسلمانوں کے خلاف انہیں مدد حاصل ہوتی ہو" انتہی

اور " المجموع" (9/432) میں اہل حرب کو اسلحہ فروخت کرنے کی حرمت پر اجماع نقل کیا گیا ہے۔

اس کی حکمت واضح اور ظاہر ہے کہ وہ اس اسلحہ سے مسلمانوں کو قتل کریں گے اور ان کے خلاف استعمال کریں گے۔

دوم:

محارب یہودیوں اور دوسرے حربی کفار کے خلاف مالی اور جانی جہاد کے مشروع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، اور اس میں ہر وہ وسیلہ اور طریقہ داخل ہوگا جس سے ان کفار کی اقتصادیات کمزور ہوں اور انہیں نقصان پہنچے اس لیے کہ پہلے دور میں بھی اور آج بھی جنگ کیلیے اقتصادیات ریڑھ کی ہڈی شمار ہوتی ہے۔

اور تمام مسلمانوں کو یہ چاہیے کہ وہ نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کا تعاون کریں اور ہر جگہ پر مسلمانوں کا ایسے تعاون کریں جس سے مسلمانوں کی شان و شوکت میں اضافہ ہو ، دھرتی پر مسلمانوں کا کنٹرول ہو، مسلمان دینی شعائر پر آزادانہ عمل کریں، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر شرعی احکام اور حدود اللہ کا نفاذ کرنے کے قابل ہو سکیں، اور ایسی اشیا کے ساتھ ان کی مدد کریں جو کافروں اور یہودیوں وغیرہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد و نصرت کا سبب بنیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
( مشرکوں کے خلاف اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں کے ساتھ جہاد کرو ) سنن ابوداود :( 2504 ) البانی نے صحیح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ مسلمانوں اور اسلام کی تقویت کا باعث بننے والے وسائل اور ذرائع بروئے کار لائیں، اور تمام ایسے اقدامات کریں جن سے کفار اور اسلام کے خلاف صف بستہ لوگوں کی کمر ٹوٹے، لہذا مسلمان ان کفار کو ایسی ملازمتوں پر نہ رکھیں جن سے وہ دولت اکٹھی کر کے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں، مثلاً انہیں اجرت پر کاتب، یا اکاؤنٹنٹ، یا انجنیئر اور خادم وغیرہ نہ رکھیں۔

خلاصہ:

یہ ہے کہ: جو کوئی بھی حربی کفار کے مال اور اشیا کا بائیکاٹ کر کے وہ کفار کے ساتھ عدم دوستی کا اظہار اور ان کی اقتصادیات کو کمزور کرنا چاہتا ہے تو اس اچھے مقصد کی بنا پران شاء اللہ اسے اجر و ثواب حاصل ہوگا۔

اور جو کوئی اصل پر عمل کرتے ہوئے -کہ کفار کے ساتھ معاملات کرنے جائز ہیں – ان کے ساتھ معاملات جاری رکھتا ہے اور خاص کران اشیا کی خریداری کرتا ہے جس کی مسلمان کو ضرورت ہے تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں اور ایسا کرنے سے اسلام کے اصول الولاء والبراء کے متعلق اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی۔

دائمی  فتوی کمیٹی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گیا:

مسلمانوں کا آپس میں تعاون ترک کر دینا وہ اس طرح کہ مسلمان کسی مسلمان سے خریدنا پسند نہیں کرتا بلکہ کفار سے خریداری کرنا پسند کرتا ہے اس کیا حکم کیا ہے اور آیا یہ حلال ہے کہ حرام؟

کمیٹی کا جواب تھا:

اصل تو جواز ہے کہ مسلمان اپنی ضرورت کی وہ اشیا جو اللہ تعالی نے اس کے لیے حلال قرار دی ہیں مسلمان سے خریدے یا کافر سے جائز ہے؛ کیونکہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہودیوں سے خریداری کی تھی۔

لیکن جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی میں دھوکا دہی، گراں فروشی، مسلمان کی اشیا گھٹیا نہ ہونے کے با وجود سے خریداری نہ کرے اور ہمیشہ کفار سے خریداری کرنا پسند کرے ، اور بلا وجہ کافر سے خریداری کو مسلمان سے خریداری پر ترجیح دے تو یہ حرام ہے کیونکہ اس میں کفار سے دلی تعلق ، محبت، اور انہیں پسند کرنے کا اظہار ہے، نیز اس سے مسلمان تاجروں کی تجارت کساد بازاری اور نقصان کا شکار ہو گی، اور جب مسلمان اس کی عادت ہی بنا لے تو اس طرح مسلمانوں سے کوئی بھی خریداری نہیں کے گا، لیکن اگر مسلمان سے خریداری نہ کرنے کا کوئی اوپر ذکر شدہ اسباب میں سے کوئی سبب ہو تو ایسے میں اپنے مسلمان بھائی کو نصیحت کرنی چاہیے تا کہ مسلمان تاجر ان عیوب کو دور کر لے، اگر تو وہ نصیحت قبول کر لے تو الحمد للہ وگرنہ وہ اس سے خریداری ترک کر کے کسی اور  سچے اور معقول انداز میں منافع لینے والے تاجر سے سامان لے لے، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو " انتہی

دیکھیں: فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء: ( 13 / 18 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب