الحمد للہ.
اول:
زنا كى حد لگنے ميں دخول شرط ہے، اور وہ مرد كى شرمگاہ عورت كى شرمگاہ ميں داخل ہونا ہے، تو اس وقت دونوں ختنے مل جاتے ہيں، يعنى مرد كے ختنے كى جگہ عورت كے ختنے كى جگہ سے مل جاتى ہے، تو جب دخول ہو جائے تو وہ زنا كا مرتكب ہوگا جس سے حد لگتى ہے، چاہے مرد كا انزال ہو يا نہ ہوا ہو، يا اس نے دخول كرنے كے بعد باہر ہى انزال كر ديا ہو، چاہے، چاہے مرد كا عضو تناسل منتشر ہو اور شہوت ہو يا ايسا نہ ہو.
فقھاء كے ہاں زنا كى حد كےمتعلق متفقہ شروط كے بارہ ميں الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" فقھاء كے مابين زنا كى حد ميں يہ متفقہ شرط ہے كہ عضو تناسل كا اگلا حصہ، يا اس كے كٹے ہوئے ميں سے كچھ حصہ عورت كى فرج ميں داخل ہو تو حد جارى ہو گى، اور اگر اس نے بالكل داخل ہى نہ كيا ، يا پھر اس ميں سے كچھ حصہ داخل كيا تو اس پر حد نہيں كيونكہ اس نے وطئ نہيں كى، اور اس ميں انزال كى شرط نہيں، اور نہ ہى داخل كرنے كے وقت انتشار اور كھڑا ہونے كى شرط ہے، چاہے انزال ہوا ہو يا نہ حد واجب ہو گى، اس كا عضو تناسل كھڑا ہو يا منتشر ہو يا نہ ہو " انتہى.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 23 ).
دوم:
اس كا يہ معنى نہيں كہ انسان جب زنا كى حد تك نہيں پہنچا تو وہ دوسرے حرام كاموں كے ارتكاب ميں سستى و كاہلى كرے؛ بلكہ اس سے وہ زنا بيان كرنا مراد ہے جس سے حد واجب ہوتى ہے، ليكن اجنبى عورت كے ساتھ مرد كى خلوت كرنا، اور اسے چھونا اور اس سے بوس و كنار كرنا بھى بلا شك و شبہ حرام ہے، مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ دنيا ميں اللہ تعالى كے عذاب كا خوف اور ڈر ركھتا ہوا اس سے اجتناب كرے، قبل اس كے كہ اسے آخرت كے عذاب سے دوچار ہونا پڑے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں رشد و ہدايت سے نوازے، اور ہميں تقوى و عفت و عمصمت اور غنا عطا فرمائے.
واللہ اعلم .