جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

دوران وضوء يا نماز يا روزہ كے دوران نيت توڑنا

93529

تاریخ اشاعت : 23-10-2007

مشاہدات : 7611

سوال

علامہ سعدى رحمہ اللہ فتاوى السعديۃ صفحہ ( 228 ) ميں لكھتے ہيں:عبادت كى نيت توڑنے كى دو قسميں ہيں:
ايك قسم تو وہ ہے جو عبادت كو كچھ نقصان اور ضرر نہيں ديتى يہ وہ نيت ہے جو عبادت پورى كرنے كے بعد ہو.....
اور دوسرى قسم وہ ہے كہ دوران عبادت نيت توڑى جائے.... تو اس سے عبادت صحيح نہيں رہتى.... "
تو كيا سعدى رحمہ اللہ كى كلام كا معنى يہ ہے كہ اگر مجھے وسوسہ يا انديشہ آئے كہ ميں روزہ توڑ دوں تو كيا اس سے ميرا روزہ ٹوٹ جائيگا؟
اور اگر يہ وسوسہ اور انديشہ بغير نيت كے ہى آ جائے تو كيا اس سے بھى روزہ ٹوٹ جائيگا ، اور ا سكا حكم كيا ہے ؟
اور اسى طرح وضوء كے دوران مجھے شك سا ہوتا ہے كہ مثلا پيشاب آيا ہے ليكن ہوتا نہيں، اور بعض اوقات وضوء توڑنے كى نيت كى ہوتى ہے اور پھر اسى طرح كچھ نہ پانے كے بعد وضوء پورا كر ليتا ہوں، تو كيا نيت ٹوٹنے كى بنا پر وضوء شروع سے دوبارہ كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب انسان عبادت كے دوران اسے توڑنے كى نيت كرے تو وہ باطل ہو جاتى ہے، اور صرف حج اور عمرہ كے علاوہ اس سے كوئى چيز مستثنى نہيں، نہ تو يہ دونوں نيت توڑنے سے باطل ہوتے ہيں، اور نہ ہى توڑنے كى صراحت كے ساتھ، بلكہ وہ حرام كى حالت ميں ہى رہے گا حتى كہ وہ حج يا عمرہ مكمل نہ كر لے، يا پھر كسى ركاوٹ كى بنا پر احرام سے حلال نہ ہو جائے.

مغنى ابن قدامہ ميں ہے:

" اور اگر وہ صحيح نيت كے ساتھ اس ـ نماز ـ كو شروع كرے، پھر اسے توڑنے اور نماز سے باہر نكلنے كى نيت كى نماز باطل ہو جاتى ہے، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول يہى ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 278 ).

اور زاد المستقنع كےباب الصلاۃ ميں لكھا ہے:

" اگر اس نے دوران نماز ہى نماز كاٹ دى، يا اس ميں تردد كيا تو نماز باطل ہو گئى "

اور باب الصوم ميں لكھا ہے:

" اور جس نے روزہ افطار كرنے كى نيت كى تواس كا روزہ افطار ہو گيا ".

ليكن شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہنے اس كى شرح ميں راجح يہ قرار ديا ہے كہ: تردد سے نماز باطل نہيں ہوتى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 486 ).

اور تردد كى طرح ہى يہ بھى كہ اگر كسى نے دروازہ كھٹكھٹانے كى آواز سنى، ت واسے تردد ہوا كہ آيا نماز چھوڑ دے يا نماز جارى ركھے ؟

اس سے يہ ظاہر ہوا كہ جس نے عبادت توڑنے كا عزم كر ليا تو اس كى عبادت باطل ہو جائيگى، ليكن اگر يہ فقط وسوسہ ہو تو اس سے عبادت باطل نہيں ہو گى.

اس بنا پر صرف وسوسہ اور انديشہ روزے كو نہيں توڑے گا جب تك كہ روزہ توڑنے كا عزم اور نيت نہ كى جائے، اور اسى طرح اگر دوران وضوء پيشاب خارج ہونے كا شك ہوا اس نے وضوء چھوڑ كر ديكھا ليكن وضوء توڑنے كى نيت نہ كى، اور كچھ نہ پايا تو اس سے ا سكا وضوء باطل نہيں ہو گا.

اور اسى طرح اگر اس نے وضوء توڑنے اور قطع كرنے كى نيت كر لى تو اس كا وضوء ٹوٹ جائيگا، اس ليے اسے باقى مانندہ وضوء مكمل كرنا جائز نہيں ہو گا، بلكہ نئے سرے سے وضوء كرنا ہو گا.

الانصاف ميں لكھا ہے:

" اگر اس نے دوران طہارت يعنى وضوء كے دوران نيت باطل كرلى تو جتنا وضوء كيا ہے صحيح مذہب كے مطابق وہ وضوء باطل ہو جائيگا، اسے ابن عقيل نے اور شرح ابن عقيل ميں المجد نے اختيار كيا، اور دونوں رعايۃ اور دونوں الحاوى ميں اسے مقدم كيا ہے.

اور ايك قول يہ ہے: جتنا وضوء كيا جا چكا ہے اس سے وہ باطل نہيں ہو گا، مصنف نے اسے المغنى ميں بالجزم يہى كہا ہے " انتہى.

ديكھيں: الانصاف ( 1 / 151 ).

وسوسہ سے بچنا ضرورى ہے، كيونكہ شيطان انسان كے پاس آكر اسے يہ خيال كراتا ہے كہ اس كى ہوا يا پيشاب خارج ہوا ہے، اور بعض اوقات تو انسان اس ميں حد سے بڑھ جاتا ہے اور پھر جو عبادت بھى كرنے لگے اس ميں اسے شك ہى ہونے لگتا ہے، جس سے اسے شديد قسم كى تنگى اور حرج پيدا ہوتا ہے.

اس اہميت كے پيش نظر آپ سوال نمبر ( 62839 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات