الحمد للہ.
روزہ فرض ہونے كے ليے عقل كا ہونا شرط ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
تين قسم كے افراد سے قلم اٹھا لى گئى ہے: مجنون اور پاگل جس كى عقل پر غلبہ ہو چكا ہو حتى كہ وہ ہوش و حواس ميں آ جائے، اور سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3499 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو جب آپ كى بہن اس حالت ميں پہنچ چكى ہے كہ اس كے ہوش و حواش ہى قائم نہيں اور عقل نہ ہونے كى بنا پر اس ميں كسى قسم كى تميز كرنا باقى نہيں رہا تو اس پر روزے فرض نہيں، اور نہ ہى اس كے ذمہ ان روزوں كى قضاء اور اس كے بدلے كھانا كھلانا ہے.
اور نماز بھى روزے كى طرح ہى ہے، چنانچہ اس پر نماز بھى فرض نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہر وہ شخص جس ميں عقل نہيں تو وہ مكلف نہيں ہے، اور نہ ہى اس پر دينى فرائض و واجبات ہيں، نہ تو نماز اور نہ ہى روزہ اور نہ ہى كھانا كھلانا يعنى جب مطلقا اس پركوئى چيز واجب نہيں ہوتى، تو اس بنا پر اول فول بكنے والے يعنى بے عقل اور مجنون شخص نہ تو روزہ فرص ہوتا ہے، اور نہ ہى كھانا كھلانا، كيونكہ وہ اہليت كھو چكا ہے، اور يہ اہليت عقل ہے " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 202 ).
واللہ اعلم .