سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كمونسٹ حكومت كے ماتحت رہنے كى بنا پر نماز روزے كا علم نہيں كيا اب ان كے ذمہ قضاء ہے ؟

سوال

ميں ايك بلغارى مسلمان عورت ہوں، ہم كمونسٹ حكومت كے ماتحت زندگى بسر كرتے رہے ہيں، اور اسلام كے متعلق ہميں كسى بھى چيز كا علم نہيں، بلكہ اكثر اسلامى عبادات ممنوع تھيں، بيس برس كى عمر تك تو مجھے اسلام كا كچھ علم نہ تھا، اور اس كے بعد اللہ كى شريعت پر عمل كرنا شروع كيا، ميرا سوال يہ ہے كہ:
اس سے قبل ميں نے جو نمازيں ادا نہيں كيں،اور روزے نہيں ركھے كيا اس كى ميرے ذمہ قضاء ہے ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سب سے پہلے تو ہم اللہ تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں كہ آپ ظالم اور فاجر كمونسٹ حكومت سے نجات حاصل كر لى ہے، چاليس برس سے زائد مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوتا رہا، اور ان كا دينى تشخص ختم كرنے كى كوشش كى جاتى رہى، اور اس مدت ميں مساجد كو منہدم كيا گيا، اور كچھ مساجد كو عجائب گھروں ميں تبديل كر ديا گيا، اور اسلامى مدارس پر زبردستى قبضہ كر ليا گيا، اور مسلمانوں كے نام تبديل كيے گئے، اور اسلامى تشخص كو بالكل مٹانے كى كوشش كى گئى، ليكن .. اللہ تعالى تو اپنا نور مكمل كر كے رہے گا، چاہے كافر ناپسند ہى كريں.

تو اس طرح ( 1989م ) كمونسٹ حكومت اپنى ظلم و زيادتى ليے ہوئے ختم ہو چكا جس سے مسلمانوں كو بہت شديد خوشى حاصل ہوئى اور وہ اپنى قديم مساجد كى طرف پلٹے اور ا نكى مرمت كرنے لگے، اور اپنے بچوں كى قرآن مجيد كى تعليم دينے لگے، اور مسلمان عورتيں باپرد ہو كر راستوں اور شاہراہوں پر نكل آئيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كو ان كے دين كى جانب اچھى طرح لائے، اور ا نكى مدد و نصرت فرمائے، اور انہيں عزت عطا كرے اور ان كے دشمن كو ذليل و رسوا كرے. آمين

دوم:

بلغاريا ميں مسلمانوں كى ايك نسل كمونسٹ حكومت كے تحت پرورش پائى جسے اسلام كےمتعلق كسى چيز كا علم ہى نہ تھا، صرف انہيں يہ پتہ تھا كہ وہ مسلمان ہيں، كيونكہ كمونسٹ حكومت اسلام كى تعليم ميں حائل ہو چكى تھى، اور اسے دينى تعليم حاصل كرنے نہ ديتى تھى، بلكہ قرآن مجيد بھى اپنے ملك داخل نہيں ہونے ديتى تھى، اور نہ ہى كوئى اسلامى كتاب لے جا سكتا تھا.

اور يہ لوگ جنہيں اسلامى احكام اور عبادات اور فرائض كا علم نہ تھا ان كے ذمہ ان عبادات كى قضاء ميں سے كچھ لازم نہيں، كيونكہ جب مسلمان كے ليے شرعى علم حاصل كرنا ممكن نہ ہو، اور نہ ہى اسے شرعى احكام پہنچے ہوں تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مسلمان اس پر متفق ہيں كہ جو شخص بھى دار كفر ميں ہو اور ايمان قبول كرنے كے بعد وہ ہجرت كرنے سے عاجز ہو تو جس سے وہ عاجز ہے اس پر وہ واجب نہيں، بلكہ حسب الامكان اس پر واجب ہوتا ہے، اور اسى طرح جب اسے كسى چيز كا حكم معلوم نہ ہو، تو اگر اسے نماز فرض ہونے كا علم نہ ہو، اور كچھ مدت تك وہ نماز ادا نہ كرے، تو علماء كے ظاہر قول كے مطابق اس كے ذمہ نماز كى قضاء نہيں، امام ابو حنيفہ اور اہل ظاہر كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كے ہاں دو ميں سے ايك وجہ يہ بھى ہے.

اور اسى طرح باقى سارے فرائض اور واجبات رمضان كے روزے، اور زكاۃ كى ادائيگى وغيرہ بھى.

اور اگر اسے شراب كى حرمت كا علم نہيں ہو اور وہ شراب نوشى كر لے تو مسلمان اس پر حد جارى نہ كرنے پرمتفق ہيں، بلكہ نمازوں كى قضاء ميں انہوں نے اختلاف كيا ہے ....

اور اس سب كچھ كى اصل يہ ہے كہ: حكم تو جب ثابت ہوتا ہے جب حصول علم ممكن ہو، اور جب كسى چيز كے وجوب اور فرضيت كا علم ہى نہ ہو تو اس كى قضاء نہيں.

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں حديث ہے كہ: كئى ايك صحابى رمضان المبارك ميں طلوع فجر كے بعد بھى اس وقت تك كھاتے اور پيتے رہے جب تك كہ سفيد دھاگہ سياہ دھاگہ سے واضح نہ ہوا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قضاء كا حكم نہيں ديا، اور پھر كچھ صحابى ايسے بھى تھے كہ كتنى مدت تك جنابت كى حالت ميں ہى نماز ادا كرتے رہے، اور انہيں تيمم كر كے نماز ادا كرنے كے جواز كا علم ہى نہ تھا، مثلا ابو ذر اور عمر بن خطاب اور عمار رضى اللہ تعالى عنہم جب جنبى ہوئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان ميں سے كسى كو بھى قضاء كا حكم نہيں ديا.

اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ مكہ اور كچھ بستيوں اور ديہات ميں وہ مسلمان بيت المقدس كى جانب رخ كر كے ہى نماز ادا كرتے رہے، حتى كہ انہيں بيت المقدس كى جانب رخ كر كے نماز ادا كرنے كے حكم كا منسوخ ہونا پہنچ گيا، ليكن كسى كو بھى نمازيں دوبارہ ادا كرنے كا حكم نہ ديا گيا، اور اس طرح كى مثاليں بہت زيادہ ہيں.

اور يہ اس اصل كے مطابق ہے جس پر جمہور سلف ہيں كہ: اللہ سبحانہ و تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا، تو وجوب قدرت و استطاعت كے ساتھ مشروط ہے، اور سزا بھى اس وقت ہوتى ہے جب حجت قائم ہونے كے بعد مامور كو ترك كيا جائے، يا پھر كسى ممنوع كام كا ارتكاب كيا جائے " انتہى مختصرا.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 19 / 225 ).

اور اس بنا پر جن عبادات كے وجوب كا آپ لوگوں كو علم نہيں تھا اس ميں كسى كى بھى آپ كے ذمہ قضاء نہيں.

اور آپ كو ہمارى يہ نصيحت ہے كہ آپ لوگ شرعى علم حاصل كريں، اور دين كى سمجھ بوجھ حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور اسلامى تعليمات اور اس پر عمل پيرا ہونے كى پورى حرص و جدوجھد كريں، اور نئى نسل كى اسلامى تربيت كريں، تا كہ وہ مسلمانوں كے خلاف كى جانے والى سازشوں كا مقابلہ كرسكيں، اور خاص كر آپ كے ملك ميں ہونے والى سازش كا.

آخر ميں ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اسلام اور مسلمانوں كو عزت دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب