"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
سوال نمبر ( 2182 ) كے جواب ميں تارك نماز كا حكم بيان ہو چكا ہے كہ نماز كا تارك كافر ہے.
آپ كو اپنے اس قريبى شخص كو نصيحت كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور اسے نماز ترك كرنے كے خطرناك انجام اور اس كے عظيم جرم كا بتانا چاہيے، اس سلسلہ ميں مستفيد ہونے كے ليے آپ سوال نمبر ( 47425 ) كا مطالعہ كريں، كيونكہ اس ميں تارك نماز كو دعوت دينے كا طريقہ بيان كيا گيا ہے، اور اگر دليل اور حجت قائم ہو جانے كے بعد بھى وہ نماز سے انكار كرتا ہے تو آپ اس كو چھوڑ كر اس سے بائيكاٹ كر ديں تا كہ وہ آپ پر اثر انداز نہ ہو جائے.
اور آپ سوال نمبر ( 4420 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
دوم:
شكار حلال ہونے كے ليے شرط يہ ہے كہ شكار كرنے والا ان ميں سے ہو جن كا ذبيحہ حلال ہو، يعنى وہ يا تو مسلمان ہو يا پھر كتابى، اس ليے مشرك اور مجوسى اور كيمونسٹ اور ملحد اور مرتد وغيرہ كا شكار حلال نہيں.
بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شكار ميں شرط يہ ہے كہ شكارى اہل ذبح ميں شامل ہوتا ہو، يعنى ان ميں شامل ہوتا ہو جن كا ذبح كردہ حلال ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تو اگر اسے شكارى كتا پكڑے ( جس پر بسم اللہ پڑھى ہو ) . متفق عليہ.
اور شكارى بھى ذبح كرنے والے كے قائم مقام ہے اس ليے اس ميں اہليت كى شرط ہو گى " انتہى بتصرف.
ديكھيں: كشاف القناع ( 6 / 218 ).
اس بنا پر آپ كے ليے اپنے قريبى كا شكار كردہ شكار كھانا جائز نہيں؛ كيونكہ تارك نماز كافر اور مرتد ہے، اس ليے اس كا ذبح كردہ حلال نہيں، اور نہ ہى اس كا شكار كردہ شكار حلال ہے.
واللہ اعلم .