سوموار 11 ربیع الثانی 1446 - 14 اکتوبر 2024
اردو

بے نمازی کو دعوت دینے اور بدعتی شخص کے ساتھ بات چیت کرنے کا بہترین طریقہ

سوال

بے نمازی کو دعوت دینے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ اور بدعتی کے ساتھ کیسے گفتگو کریں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جسے آپ دعوت دینا چاہتے ہیں سب سے پہلے اس کی نماز کی ادائیگی اور دیگر عبادات کا اہتمام پرکھیں، اس کے بعد  اسے عبادت گزاری پر ملنے والے ثواب کے ذریعے ترغیب دیں یا سزا سے ڈرائیں، اگر شریعت میں اجمالی طور پر یہی قاعدہ ہے کہ ان دونوں [ترغیب اور ڈرانے]کو جمع کیا جائے، نیز اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھیں کہ وہ شخص کس قدر آپ کی بات سننے کیلیے تیار ہے؟ وہ وعظ کرنے پر اثر قبول کرتا ہے یا نہیں؟

دوم:

بے نمازی شخص کو نماز کی دعوت دینے کا بہترین طریقہ درج ذیل نکات میں محصور ہے:

1- بے نمازی شخص کو یاد دہانی کروائیں کہ نماز فرض ہے اور شہادتین کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن ہے۔

2- نماز کے فضائل ذکر کریں، مثلاً: نماز اللہ تعالی کی طرف سے بندوں پر فرض کردہ سب سے اعلی ترین عبادت ہے، قرب الہی کا سب سے بہترین ذریعہ ہے، دینی امور میں سب سے پہلے نماز کا ہی حساب لیا جائے گا، پانچوں نمازیں درمیان میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے، ایک سجدے کے بدلے میں اللہ تعالی بندے کا درجہ بلند فرماتا ہے اور اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے۔۔۔ اسی طرح دیگر نماز کے ثابت شدہ فضائل ذکر کریں؛ کیونکہ فضائل ذکر کرنے سے انسان کا دل موم ہو جاتا ہے ۔ان شاء اللہ مخاطب آپ کی ترغیب پر عمل بھی کرے گا، اللہ تعالی سے امید واثق ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز تھی اسی طرح اس شخص کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی نماز بن جائے۔

3- بے نماز شخص کے بارے میں آنے والی سخت وعیدیں انہیں سنائیں  اور ایسے شخص کے کافر اور مرتد ہونے کے متعلق علمائے کرام کا اختلاف ذکر کریں، یہ بھی بتلائیں کہ اسلام بے نماز شخص کو لوگوں میں آزادانہ زندگی کی اجازت نہیں دیتا؛ کیونکہ بے نمازی کے متعلق واجب یہ ہے کہ اسے نماز کی دعوت دی جائے گی اور اگر وہ بے نماز ہی رہے تو وہ امام احمد اور ان کے ہم موقف سلف صالحین کے ہاں مرتد ہے اور اسے قتل کر دیا جائے گا، جبکہ امام شافعی اور امام مالک کے ہاں اس کی سزا قتل ہی ہے لیکن بطور حد اسے قتل کیا جائے گا، جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کے مطابق اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا، چنانچہ بے نمازی کی آزادانہ زندگی کا کوئی بھی اہل علم قائل نہیں ہے، لہذا بے نمازی کو کہا جائے گا کہ : کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ اہل علم  آپ کے کفر، قتل اور قید کرنے کے متعلق مختلف آراء رکھیں؟

4- بے نمازی کو اللہ تعالی سے ملاقات ، موت اور قبر  یاد کروائیں، بے نمازی کے برے انجام اور عذاب قبر  میں اس کے ساتھ جو کچھ ہونے والا ہے یہ بھی بتلائیں۔

5- اسے بتلائیں کہ مقررہ وقت سے  نماز کی تاخیر کرنا کبیرہ گناہ ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيّاً)
ترجمہ: ان کے بعد نا خلف لوگ آئے انہوں نے نمازیں ضائع کیں اور شہوت پرستی   میں لگ گئے، عنقریب وہ جہنم کی وادی میں گریں گے۔ [مريم:59] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ" غی" سے مراد جہنم کی وادی ہے جس کی گہرائی بہت زیادہ اور اس کا کھانا انتہائی خبیث ہے اللہ فرماتے ہیں

فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ سَاهُونَ

ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں ( الماعون/4، 5).

6- اسے بتلائیں کہ اگر اس پر کفر کا حکم لگ جاتا ہے تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ مثلاً: اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا، وہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکتا اپنی بیوی سے تعلقات نہیں بنا سکتا، اگر مر گیا تو اس کو غسل  ، کفن اور جنازہ بھی نصیب نہیں ہو گا، بے نمازی شخص کے کافر ہونے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آدمی کے درمیان اور شرک  و کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے) مسلم: (82) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ہمارے اور ان کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے، جو نماز چھوڑے گا  تو اس نے کفر کیا) ترمذی: (2621) نسائی: (463) ابن ماجہ (1079)

7-  اسے ایسی کتابیں اور کیسٹس دیں جن میں نماز کا حکم ، بے نمازی کی سزا اور نماز کی ادائیگی میں سستی کرنے والوں کو ملنے والی سزائیں بیان کی گئی ہوں۔

8- نماز ترک کرنے پر اس کی سرزنش کریں  اور قطع تعلقی کر لیں۔

جبکہ بدعتی شخص کے متعلق معاملہ قدرے مختلف ہے، اس کیلیے یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کس قسم کی بدعات میں ملوث ہے، تاہم یہ بات ضروری ہے کہ اسے اللہ تعالی کی جانب لوٹنے کی دعوت دیں گے اس پر حجت قائم کریں گے اور اس کے شبہات کا ازالہ کریں گے، اگر وہ اپنی بدعت پر قائم رہتا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر اس سے قطع تعلقی کر لی جائے  اور اس کے ساتھ سختی کی جائے تو مثبت فوائد متوقع ہیں  تو اس سے قطع تعلقی کر لی جائے۔

تاہم کسی شخص پر بدعتی ہونے کا حکم لگانے کیلیے سب سے پہلے تصدیق ضروری ہے، اس بارے میں اہل علم سے رجوع کریں، بدعت اور بدعتی شخص دونوں کو الگ الگ زاویے سے دیکھیں؛ کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شخص جاہل ہو یا کوئی تاویل کر رہا ہو۔

مزید تفصیلات کیلیے آپ    یہ کتاب " حقيقة البدعة وأحكامها " از سعید بن ناصر غامدی   کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب