"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
ہم اميد ركھتے ہيں كہ ہمارے بارہ ميں آپ كا گمان اچھا ہى ہوگا، ليكن ہم اس پر خوش نہيں كہ اہل سنت كى دوسرى ويب سائٹس كے بارہ ميں آپ كا نظريہ سلبى ہو، ہم آپ سے يہى چاہتے ہيں كہ آپ ان ويب سائٹس كو قائم كرنے والوں كے بارہ ميں اچھا گمان ركھيں، اور انہيں معذور سمجھيں، اگر آپ ہمارے اور ان كے پاس آنے والوں سوالات كى تعداد ديكھيں تو ضرور ہم سب كو معذور سمجھنے لگيں گے.
آپ اكيلے نہيں جو جلد جواب حاصل كرنا چاہتے ہيں، اور پھر اس كے متعلق ہر سائل كى رغبت كو پورا كرنا ممكن نہيں ہے، اس ليے ہمارے اور دوسرى ويب سائٹس والوں كے ليے عذر موجود ہے، اور كريم وہى شخص ہوتا ہے جو دوسرے كو معذور سجھے يعنى اس كے ليے كوئى عذر تلاش كر لے.
دوم:
اس اجنبى اور كفريہ ملك ميں آپ كے ساتھ جو كچھ ہوا وہ ہمارے اس قول كى تائيد و تاكيد كرتا ہے جو ہم ہميشہ كہتے رہتے ہيں كہ ان ممالك كى طرف سفر كرنا جائز نہيں، اور خاص كر جب سفر كرنے والا شخص نوجوان لڑكا يا لڑكى ہو اور ابھى جوانى كى ابتداء ہو، اور شہوت بھى پورى تر ابھر كر آئى ہو.
اس ليے ماں باپ كو ان ممالك ميں اپنى اولاد كے حالات كا علم ہونا چاہيے كہ وہاں غالبا افسوس ناك حالت ہى ہوتى ہے، اور وہ دين سے درو رہتے ہيں، اور فحش كام ميں پڑ كر صحيح اور مستقيم سلوك سے ہٹ جاتے ہيں، اور شرعى مخالفات كى يہى سزا ہے جو مل كر رہتى ہے.
اس ليے ماں اور باپ پر واجب ہے كہ وہ اپنى اولاد كا خيال كريں، اور ان كے دين اور سلوك كے عوض اپنے بچوں كو تعليم دلانے كى حرص نہ ركھيں.
سوم:
ہم آپ كو توبہ كرنے پر مباركباد ديتے ہيں، اور اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو كفر و فسوق اور نافرمانى كى راہ سے نكال كر ہدايت كى راہ پر ڈال ديا، آپ كى بجائے كتنے ہى ايسے دوسرے افراد ہيں جو جہالت و گمراہى اور نافرمانى كے اندھيروں ميں ڈبكياں كھا رہے ہيں، اور آپ كى بجائے كتنے ہى ايسے افراد ہيں جو اخلاق كى چوٹيوں فضائل كى بلنديوں سے نيچے گرے ہوئے ہيں، اس ليے آپ كو چاہيے كہ آپ توبہ كے شجرہ كو مضبوطى سے تھام كر ركھيں، اور تقوى و پرہيزگارى كى رسيوں كو مضبوطى سے پكڑ ليں.
اور آپ واپس پہلى حالت پر پلٹنے سے اجتناب كرتے ہوئے ايسے كام مت كريں جو آپ كو پہلے حال ميں واپس لے جائے كيونكہ آپ ايسى نعمت ميں ہيں جس سے اكثر لوگ محروم ہيں، اس ليے آپ توبہ ترك كر كے اس نعمت كى ناشكرى مت كريں.
چہارم:
ہم اپنى بہن كو بھى اسلام قبول كرنے پر مباركباد پيش كرتے ہيں، اور اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے اسے توفيق دى اور اسلام كى راہ دكھائى، بلاشك و شبہ وہ اب اپنى پہلى اور اسلام كے بعد والى حالت ميں خوب فرق معلوم كر رہى ہوگى، اور اسے كافر اور مسلمان انسان ميں عظيم فرق بھى معلوم ہوگيا ہو گا.
اور اسے اس فرق كا بھى علم ہوگيا ہو گا كہ اسلام قبول كرنے سے قبل اس كا دل كتنا تنگ اور خراب تھا، اور اسلام كے بعد اس كے دل ميں كيا وسعت و شرح صدر پيدا ہوا ہے، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اسے مزيد ہدايت و توفيق سے نوازے، اور اسے ہدايت يافتہ اور ہدايت كى راہنمائى كرنے والى بنائے.
پنجم:
يقينا جو شخص ہدايت و راہنمائى سے دور رہتا ہے وہ قول و فعل اور سوچ ميں خبط كا شكار رہتا ہے، اور ايسا منہج اور راہ اختيار كرتا ہے جو جن و انس ميں سے شيطان كو ہى پسند ہے اور وہ ايسى مباديات پر زندگى بسر كرتا ہے جو كسى صحيح نص كے موافق نہيں، اور نہ ہى اسے عقل صريح قبول كرتى ہے، آپ اس كى مثال " خيانت " كى اصطلاح سے لے سكتے ہيں!
ان كے نزديك اس كا معنى يہ ہے كہ عاشق اپنى معشوق كى خيانت كرے يا پھر معشوق اپنے عاشق كى خيانت كرتى ہو! ہو سكتا ہے عورت خاوند والى ہو، اور اپنے عاشق كے ساتھ اپنے خاوند كى خيانت كرتى ہو، پھر جب وہ عورت جب اپنے عاشق كو كسى دوسرى عورت كے ساتھ ديكھے تو رونے لگے، اور نوحہ كرے اور اس كى توہين كرے، ہو سكتا ہے اسے مارے بھى! كيوں اس ليے كہ اس نے اس عورت كے ساتھ خيانت كى ہے!! گويا كہ اس عورت نے اپنے خاوند كى خيانت نہيں كى، اور ايسے ہے جيسے اس نے كوئى گناہ ہى نہيں كيا، بلكہ وہ سارا عتاب اور عيب اپنے خائن عاشق پر تھوپ رہى ہے!
تو يہ لوگ كون سى مباديات پر جى رہے ہيں؟ اور كس منطق پر چل رہے ہيں ؟.
اور اگر آپ افسوس كرنا ہى چاہتے ہيں تو اس مسلمان شخص پر افسوس كريں جو اپنے پروردگار كے ساتھ خيانت كا مرتكب ہو رہا ہے، اور نہ تو وہ اللہ كے ساتھ خيانت كو جانتا ہے اور نہ ہى اسے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خيانت كى پہچان ہے، اور نہ ہى اپنے دين كے ساتھ خيانت كو سمجھ رہا ہے، ليكن وہ اپنى محبوبہ اور معشوق كى خيانت كو شمار كرنا كر كے پيٹ رہا ہے، حالانكہ وہ خود اس كے ساتھ كبيرہ گناہ كا مرتكب ہوتا ہے، حالانكہ پہلے تو وہ خود اللہ اور اس كے رسول اور دين اسلام كا خائن ہے.
ميرے سائل بھائى:
آپ اس عورت كو ملامت كر رہے ہيں جو آپ كے اور كسى دوسرے كے ساتھ سوتى رہى اور وہ كافرہ تھى! ليكن آپ اپنے آپ كو كيوں ملامت نہيں كرتے كہ آپ نے وہ كچھ كيا جو آپ كے ليے حلال نہ تھا اور آپ اسلام كے دعويدار اور اسلام كى طرف منسوب ہيں ؟!.
آپ اس عورت كو ملامت كر رہے ہيں جو اسلام قبول كر كے ايك اچھى مسلمان ہو چكى ہے، جو كفر كى حالت ميں فسق و قجور كى مرتكب تھى؟!.
آپ كا موقف تو بہت ہى كمزور ہے، اور آپ كوم لامت و عيب لگانے كا كوئى حق حاصل نہيں، نہ تو اس كے كافرہ ہوتے ہوئے، اور نہ ہى اس كے مسلمان ہوتے ہوئے، كيونكہ جب وہ كافرہ تھى تو اس كا كفر اس كے ہر گناہ سے بڑا گناہ تھا، اور جب وہ كافرہ تھى تو اسے فحش كاموں سے روكنے والا كوئى چيز نہ تھى.
اور جب وہ اسلام لے آئى تو اس كے اسلام نے اس كے پچھلے سارے گناہ اور غلطياں مٹا ڈاليں، جب اس نے اسلام قبول كر ليا تو اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كى سارى برائياں اور گناہ نيكيوں ميں بدل ڈاليں! تو پھر آپ كس وجہ سے اس كے كافرہ ہونے يا مسلمان ہونے پر عيب لگاتے اور ملامت كرتے ہيں ؟!
امام مسلم رحمہ اللہ نے عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
" جب اللہ تعالى نے ميرے دل ميں اسلام ڈال ديا تو ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كيا:
" اپنا داياں ہاتھ بڑھائيں تا كہ ميں آپ كى بيعت كروں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بڑھايا عمرو بن عاص بيان كرتے ہيں ميں نے اپنا ہاتھ روك ليا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اے عمرو كيا ہوا ؟
وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا: ميں ايك شرط لگانا چاہتا ہوں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا شرط لگانا چاہتے ہو ؟
ميں نے عرض كيا:
يہ كہ مجھے بخش ديا جائے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
كيا تمہيں معلوم نہيں كہ اسلام اپنے سے ماقبل سب گناہوں كو ختم كر ديتا ہے، اور ہجرت اپنے سے قبل سب گناہ دھو ڈالتى ہے، اور حج اپنے سے قبل سب غلطياں صاف كر ديتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 121 ).
اور امام بخارى اور مسلم رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:
كچھ مشرك لوگوں نے بہت زيادہ قتل كيے اور بہت زيادہ زنا كا مرتكب ہوئے اور وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كرنے لگے:
آپ جو كہتے اور جس كى دعوت ديتے ہيں وہ بہت اچھى چيز ہے، ليكن اگر آپ ہميں يہ بتائيں كہ ہم نے جو كچھ كيا ہے اس كا كوئى كفارہ بھى ہے ؟
تو يہ آيت نازل ہوئى:
اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى اور كى عبادت نہيں كرتے، اور نہ ہى اللہ كى جانب سے حرام كردہ جان كو ناحق كرتے ہيں، اور نہ ہى زنا كے مرتكب ہوتے ہيں .
اور يہ آيت نازل ہوئى:
آپ كہہ ديجئے اے ميرے وہ بندو جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم و زيادتى كى ہے وہ اللہ كى رحمت سے نااميد نہ ہوں .
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4436 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 174 ).
چنانچہ ان مشرك لوگوں نے بہت زيادہ قتل بھى كيے اور بہت زنا بھى، تو ديكھيں اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے ليے كيا نازل فرمايا، اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے ليے نازل فرمايا كہ ان كى سارى برائياں نيكيوں ميں تبديل كر دى جائينگى.
اور سابقہ حديث ميں ہے كہ اسلام قبول كرنا اپنے سے قبل سب گناہوں كو دھو ڈالتا ہے، تو اس كے بعد آپ كے ليے كيا عذر رہ جاتا ہے ك اس عورت نے جاہليت ميں جو كچھ كيا اس پر آپ اس كا محاسبہ كرتے پھريں؟!
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" جب انسان اپنے گناہ سے توبہ ميں سچا ہو چاہے وہ گناہ كتنا ہى بڑا اور شرك يا زنا يا قتل يا حرام مال كھانا ہى كيوں نہ ہو، اور وہ شخص اپنے گناہ پر نادم ہو اور حقوق حقداروں كو واپس كر دے يا پھر وہ اسے معاف كر ديں، اور پھر توبہ كے بعد وہ نيك و صالح اعمال كرے تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرماتا ہے، اور اس كے گناہ معاف كر ديتا ہے، بلكہ اس كے سارے گناہوں كو نيكيوں ميں تبديل فرما ديتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى دوسرے معبود كو نہيں پكارتے اور كسى ايسے شخص كو جسے قتل كرنا اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسے ناحق قتل نہيں كرتے، اور نہ ہى وہ زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائيگا .
اسے قيامت كے دن دوہرا عذاب كيا جائيگا، اور وہ ذلت و رسوائى كے ساتھ ہميشہ اسى ميں رہےگا .
سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك و صالح اعمال كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے .
اور جو شخص توبہ كرے اور نيك و صالح عمل كرے وہ تو ( حقيقتا ) اللہ كى طرف سچا رجوع كرتا ہے الفرقان ( 68 - 71 ).
اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:
ان لوگوں كو كہہ ديجئے جنہوں نے كفر كيا اگر وہ اپنے كفر سے رك جائيں تو ان كے پچھلے سب گناہ معاف كر ديے جائيں گے الانفال ( 38 ).
اور ايك اور مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كہ اے ميرے بندو! جنہوں نے اپنى جانوں پر زيادتى كى ہے تم اللہ كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، يقينا اللہ تعالى سارے گناہوں كو بخش ديتا ہے، واقعى وہ بڑى بخشش و رحمت والا ہے الزمر ( 53 ).
اور يعقوب عليہ السلام نے اپنے بيٹوں كو فرمايا تھا:
اور تم اللہ كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ، كيونكہ اللہ كى رحمت سے تو كافر لوگ ہى نااميد ہوتے ہيں يوسف ( 87 ).
اس كے علاوہ اس موضوع كے متعلق اور بھى بہت سارى آيات ہيں، اور احاديث نبويہ ميں بھى توبہ كى ترغيب دى گئى ہے، اور اللہ كى رحمت اور اس كى بخشش كى اميد كى رغبت دلائى گئى ہے، اور پھر توبہ كا دروازہ تو مغرب كى جانب سے سورج طلوع ہونے تك يا پھر موت آنے تك كھلا ہے.
اس ليے جو شخص بھى گناہ كا ارتكاب كر بيٹھے اسے اللہ كے ہاں توبہ كرنى چاہيے، اور اپنے كيے پر نادم ہو، اور حقداروں كو ان كے حقوق واپس كرے، يا پھر ان سے معافى مانگ لے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ حسن ظن ركھتے ہوئے اس كى رحمت كى اميد كرے، چاہے اس كا گناہ كتنا بھى بڑا ہو، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كى رحمت تو بہت زيادہ وسيع ہے، اور اس كى بخشش بہت زيادہ ہے، اس شخص كو چاہيے كہ وہ اللہ كى ستر پوشى كى اميد ركھتے ہوئے ستر پوشى اختيار كرے، اور اسے ختم مت كرے، اور اللہ تعالى سے ممد و معاون ہے.
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء ( 24 / 296 - 297 ).
اس ليے آپ كو اس كے بارہ ميں كچھ علم ہوا اس كے بعد آپ كے جذبات بھڑكنے اور غضبناك ہونے كى كوئى وجہ نہيں، اور نہ ہى آپ اسے زدكوب كر سكتے ہيں، كيونكہ وہ اسلام قبول كر چكى ہے، اوراپنے سابقہ دين اور اپنى تاريك تاريخ كو طلاق دے چكى ہے، پھر اس كى جاہليت پر كس ليے اس كا محاسبہ ہو سكتا ہے.
اور خاص كر جب آپ خود بھى اس كى تاريخ كا ايك حصہ اور ورق بن چكے ہيں؟! اور آپ نے خود اس كے ساتھ قبيح و شنيع فعل بھى كيا، حالانكہ آپ خود كو مسلمان كہتے ہوئے اسلام كى طرف منسوب تھے جو آپ كے ليے ايسے افعال كو حرام كرتا ہے، اور وہ عورت تو آپ كے اس دين كى طرف منسوب نہ تھى جو اسے ان افعال سے منع كرتا، بلكہ آپ خود ان كفار كى نقالى اور ان كے رسم و رواج اور عادات پر راضى ہو كر ان جيسے افعال كرنے لگے، اور اس نے تو اس ميں كوئى مخالفت نہيں كى!.
ششم:
ہميں تو آپ كى كلام سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ وہ عورت اسلام قبول كر چكى ہے، اور اس نے اسلام كو اچھى طرح قبول كر كے اس پر عمل بھى كرنا شروع كر ديا ہے، لگتا ہے كہ كئى ايك جانب سے وہ عورت آپ سے بہتر اوراچھى ہے، اس ليے جب وہ آپ كى بيوى بننے پر راضى ہو چكى ہے تو آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ اس كے ساتھ حسن معاشرت سے پيش آئيں، اور اس كے عزم كو قوى بنائيں، اور آپ ہر طرح سے اس كا ساتھ ديں اور اس كى مدد و تعاون كريں.
ہفتم:
خاص كر اسے طلاق دينے كے متعلق گزارش يہ ہے كہ:
آپ كسى ايسے اہل علم سے رابطہ كريں جس كو آپ ثقہ سمجھتے ہوں اسے اپنا موقف بيان كريں اور طلاق ديتے وقت جو حقيقت حال تھى وہ واضح كريں، كيونكہ غصہ كے كئى ايك درجات ہيں ہر غصہ ميں طلاق واقع ہو جاتى ہے، اور نہ ہى ہر غصہ كى حالت ميں طلاق كے عدم وقوع كاحكم لگايا جا سكتا ہے، بلكہ غصہ والے اس شخص كى طلاق واقع نہيں ہوتى جو غصہ كى حالت ميں اپنے ہوش و حواس پر مكمل كنٹرول كھو بيٹھے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ہوش و حواس كھو جانے كى صورت ميں نہ تو طلاق ہے اور نہ ہى غلام كى آزادى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2193 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2046 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اغلاق" كا معنى يہ ہے كہ: انسان كى عقل پر پردہ پڑ جائے حتى كہ وہ بغير ارادہ ہى كوئى كام كر بيٹھے.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 130 ) سوال نمبر ( 20 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" جو شخص غصہ كى حالت ميں اپنے قول كا تصور كر سكتا ہو اس كى طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن وہ شخص جسے غصہ كى حالت ميں پتہ نہ چلے كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو اس كى طلاق واقع نہيں ہو گى "
ديكھيں: الملخص الفقھى ( 2 / 308 ).
غصہ كى حالت ميں طلاق كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ كريں:
سوال نمبر ( 22034 ) اور ( 45174 ) اور ( 6125 ) اور ( 72439 ).
اگر تو سابقہ تينوں حالات ميں آپ كى طلاق واقع ہوچكى ہے تو پھر وہ عورت آپ كے ليے حرام ہے، اور آپ كے ليے اسے اپنى عصمت ميں واپس لانا حلال نہيں، ہاں يہ ہے كہ اگر وہ كسى اور شخص سے رغبت كے ساتھ نكاح كرے اور وہ شخص اس سے دخول بھى كر لے، پھر بعد ميں وہ شخص يا تو فوت ہو جائے، يا پھر كبھى اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے، اور اگر تين طلاقوں ميں سے كوئى ايك واقع نہيں ہوئى تو پھر آپ كے ليے وہ باقى رہے گى جو بقايا بچى ہوں، چنانچہ اس طرح آپ كو اس سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، اس كو جاننے كے ليے آپ كسى قابل اور ثقہ عالم دين سے ملاقات كريں، تا كہ آپ نے جو كچھ كيا ہے وہ اس كى تفصيل معلوم كر كے آپ كو بتائے.
ہشتم:
اس بيوى ـ اگر تو وہ اب تك آپ كى بيوى ہے ـ كے بارہ ميں ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اسے اپنے پاس لانے كى كوشش كريں؛ تا كہ وہ كافر معاشرے سے چھٹكارا حاصل كر سكے جس ميں فتنہ و فساد پايا جاتا ہے جہاں وہ ابھى تك رہ رہى ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ اپنے ساتھ يہ عہد كريں كہ آپ اس كے ساتھ حسن معاشرت كريں گے، اور اچھے طريقہ سے پيش آ كر بہتر سلوك كريں گے، اور اسے اسلام سے قبل اس كے ماضى كى عار نہيں دلائيں گے اور نہ ہى غلط ماضى كا طعنہ ديں گے، اور اس كے متعلق آپ كو جو كچھ علم ہو چكا ہے اس كا آپ پر كوئى اثر نہيں ہوگا.
اس ليے اگر آپ ايسا كرنے كى استطاعت ركھتے ہيں تو پھر آپ اسے اپنے پاس بلائيں اور ايك اسلامى گھرانہ اور خاندان تعمير كريں، اور اگر آپ ايسا نہيں كر سكتے تو پھر اسے اپنے ملك ميں ہى رہنے ديں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اسے كوئى آپ سے بہتر شخص عطا فرما دے، اور ہو سكتا ہے آپ كو اس سے كوئى بہتر عورت مل جائے.
اور آپ كا يہ كہنا: " ميں اس كا ماضى كيسے بھول سكتا ہوں كہ وہ ميرے ساتھ سوتى اور جاگتى اور كھاتى پيتى اور ميں اس كے ساتھ ايك مسلمان خاوند اور بيوى كى طرح رہتا تھا ؟
ہميں اجازت ديں كہ ہم ـ ہمارے عزيز مسلمان بھائى ـ آپ كے كان ميں راز والى بات كہيں كہ آپ اپنا ماضى كيسے بھول سكتے ہيں ؟!
بلكہ آپ اپنے پروردگار سے اپنے ماضى كى كس طرح معافى و بخشش مانگ سكتے ہيں، اور آپ خود تو اللہ كے بندوں كو معاف نہيں كر رہے، اور ان كے ماضى كو معاف نہيں كرتے بلكہ اسے كريد رہے ہيں ؟!
اس بنا پر اگر آپ حقيقتا يہ ماضى اپنے ساتھ ركھ رہے ہيں اور يہى آپ كى مراد ہے تو پھر ہم آپ كو يہ نصيحت بالكل نہيں كرتے كہ آپ اسے اس كے ملك سے لا كر اپنے پاس بسائيں، بلكہ آپ اس كى جان چھوڑ ديں اور آزاد كر ديں، اور اس كے سارے حقوق ادا كريں.
اور اگر آپ اس ماضى كو بھولنے كے ليے تيار ہيں اور اس كے اسلام قبول كرنے اور اس كى توبہ كے بعد اس كے ساتھ زندگى گزارنا چاہتے ہيں تو پھر كسى اور عورت كى بجائے يہ عورت ہى آپ كے ليے بہتر اور اچھى ہے.
نہم:
رہا مسئلہ آپ كے خاندان والوں كا مطالبہ كہ اسے طلاق دو تو اس سلسلہ ميں گزارش ہے كہ اس مسئلہ ميں آپ كے ليے ان كى اطاعت واجب نہيں، اور آپ كے خاندان اور گھر والوں كو اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرنا چاہيے كہ وہ آپ اور آپ كى بيوى كے مابين عليحدگى كرنا چاہتے ہيں.
اور اگر آپ اسے اپنى بيوى بنا كر ركھنا چاہيں تو اس ميں آپ والدين كے نافرمان نہيں ٹھريں گے، بلكہ آپ اور آپ كى بيوى كے مابين قطع رحمى اور عليحدگى كرانے كى كوشش كا گناہ تو آپ كے والدين كو ہوگا، اگر آپ بيوى كو نہ چھوڑيں.
مزيد آپ سوال نمبر ( 47040 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دہم:
رہا آپ كا يہ سوال:
" كيا زنا ميرى گردن پر قرض ہے كہ ايك دن مجھے اس كى قيمت چكانا ہو گى ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ: اگر تو آپ صدق دل سے اللہ كے ہاں توبہ كريں جيسا كہ آپ اپنے متعلق كہہ رہے ہيں تو اميد ہے كہ قرض نہيں ہوگا، اور آپ كا اس پر مؤاخذہ نہيں كيا جائيگا؛ توبہ كرنے والوں كے ليے بخشش اور اسے نيكيوں سے بدل دينے كے وعدہ كا اوپر بيان ہو چكا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے گناہوں كو بخش دے، اور جہاں كہيں بھى خير و بھلائى ہو وہ آپ كے مقدر ميں كرے، اور آپ كو وہ كچھ كرنے كى توفيق دے جس ميں آپ كى حالت كى اصلاح ہو.
واللہ اعلم .