الحمد للہ.
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے معاملات ميں آسانى پيدا فرمائے اور آپ اور آپ كے خاوند كے حالات كى اصلاح كرے.
دوم:
آپ نے جن تين حالات كے متعلق دريافت كيا ہے اس كا جواب درج ذيل ہے:
پہلى حالت:
اس ميں خاوند نے كہا تھا: " جب ہم ملك واپس جائيں گے تو تمہيں طلاق " جب آپ ملك واپس آئے تو يہ طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ يہ صرف اور خالص تعليق ہے يعنى اسے ملك واپس آنے كے ساتھ معلق كيا گيا ہے، اس سے كسى چيز سے روكنا يا كسى كام كى ترغيب نہيں اور نہ ہى كسى كى تصديق يا تكذيب ہے.
فرض كريں كہ اگر خاوند كہتا ہے: ميرا ارادہ تو يہ تھا كہ ميں اسے واپس آنے پر طلاق دے دونگا تو اس كى يہ بات قبول نہيں كى جائيگى؛ كيونكہ اس كا " انت طالق " كہنا يہ طلاق كے صريح الفاظ ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے اس ميں طلاق دينے كے وعدہ كى نيت و مراد قبول نہيں كى جائيگى.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" طلاق كى قسم يہ ہے كہ جس سے قسم اٹھانے والا كسى چي زكى ترغيب دلانا چاہتا ہو يا پھر كسى چيز سے روكنا چاہے يا سامعين اور مخاطبين ميں سے كسى كو تصديق يا تكذيب پر ابھارنا چاہتا ہو، تو يہ طلاق كے ساتھ قسم ہوگى اور يہ معلق كرنا ہے، اور اس كا مقصد كسى كام پر ابھارنا يا كسى كام سے منع كرنا، يا پھر كسى كى تكذيب يا كسى كى تصديق ت واسے طلاق كے ساتھ قسم كہا جائيگا، بخلاف محض تعليق كے، اسے قسم نہيں كہا جائيگا.
مثلا اگر كوئى شخص كہتا ہے جب سورج طلوع ہو تو اس كى بيوى كو طلاق.
يا كوئى كہے: جب رمضان شروع ہو تو اس كى بيوى كو طلاق.
اسے قسم نہيں كہا جائيگا، بلكہ يہ تو خالص تعليق اور خالص شرط ہے، جب بھى يہ شروط پورى ہو جائے طلاق واقع ہو جائيگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 129 - 131 ).
اس طرح كے مسئلہ كا جواب سوال نمبر ( 43481 ) كے جواب ميں بھى گزر چكا ہے.
دوسرى حالت:
جس ميں اس نے آپ كوم وبائل پر " تجھے طلاق " كا ميسج كيا ہے اس ميں ميسج لكھتے وقت خاوند كى نيت كو ديكھا جائيگا اگر تو اس نے طلاق كا عزم كيا تھا تو يہ طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے لكھتے وقت اس سے كچھ اور ارادہ كيا اور طلاق مراد نہ تھى مثلا ڈرانا دھمكانا اور خوفزدہ كرنا تو پھر طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ اس نے طلاق كى نيت نہيں كى تھى.
مزيد آپ سوال نمبر ( 72291 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
تيسرى حالت:
اس ميں بيان ہوا ہے كہ غصہ اتنا شديد تھا كہ اسے علم ہى نہيں كہ وہ كيا كر رہا ہے اور آپ كو اس نے طلاق دے دى، پھر عدالت ميں گيا اور قاضى نے طلاق نہ ہونے كى فيصلہ كيا تو يہاں قاضى كا فيصلہ معتبر ہوگا.
كيونكہ غصہ كے كچھ ايسے حالات ہيں جن ميں طلاق واقع نہيں ہوتى، ہو سكتا ہے قاضى كے سامنے جو كچھ بيان كيا گيا اس كى روشنى ميں قاضى كے ليے يہ واضح ہوا ہو كہ غصہ اتنا شديد تھا كہ طلاق واقع ہونے ميں مانع ہے.
غصہ كى حالت ميں دى گئى طلاق كى تفصيل سوال نمبر ( 45174 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
ہمارى اس خاوند كو نصيحت ہے كہ وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرے، اور اپنى زبان كو طلاق كے الفاظ سے روك كر ركھے تا كہ خاندان كى تباہى كا سبب نہ بن جائے.
ہمارى اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .