"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
نماز کے صحیح ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں؟
الحمد للہ.
اصولی علمائے کرام کے ہاں شرط اس چیز پر بولتے ہیں کہ: جس کے عدم سے عدم لازم آئے لیکن وجود سے وجود لازم نہ آئے۔ [یعنی: جس چیز کی عدم موجودگی سے متعلقہ فعل کالعدم قرار پائے لیکن اس کے پائے جانے سے متعلقہ فعل کا پایا جانا لازم نہ ہو۔ مترجم]
تو نماز کے صحیح ہونے کی شرائط سے مراد ایسی چیزیں ہیں جن کے پائے جانے پر نماز صحیح ہو گی، یعنی اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی معدوم ہو تو نماز صحیح نہیں ہو گی، یہ شرائط درج ذیل ہیں:
پہلی شرط:
نماز کا وقت شروع ہو جائے، یہ نماز کی اہم ترین شرط ہے، اس لیے وقت شروع ہونے سے قبل نماز ادا کرنے پر نماز نہیں ہو گی، اس پر تمام علمائے کرام کا اجماع ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ الصَّلاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَاباً مَوْقُوتاً
ترجمہ: یقیناً نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے۔ [النساء: 103]
اللہ تعالی نے نمازوں کے اوقات مجمل طور پر قرآن کریم میں ذکر کیے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً
ترجمہ: آپ زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کریں، اور فجر کے وقت قرآن (پڑھنے کا التزام کیجئے) کیونکہ فجر کے وقت قرآن پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ [بنی اسرائیل: 78]
تو اس آیت کریمہ میں زوال شمس سے لے کر رات کے اندھیرے تک یعنی آدھے دن سے لے کر آدھی رات تک کا ذکر ہے جس میں چار نمازیں ظہر، عصر، مغرب اور عشا آتی ہیں، پھر ان نمازوں کے اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سنت مبارکہ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں جو کہ ہم پہلے سوال نمبر: (9940 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔
دوسری شرط:
ستر ڈھانپنا، چنانچہ اگر کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کا ستر کھلا ہوا ہو تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ
ترجمہ: اے بنی آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اپناؤ۔[الاعراف: 31]
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اجماع ہے کہ جس شخص کے پاس لباس بھی ہو اور لباس پہننے کی قدرت کی بھی رکھتا ہو لیکن وہ لباس چھوڑ کر برہنہ حالت میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز فاسد ہ ہے۔" ختم شد
نمازیوں کی مختلف اقسام کے لیے ستر کی حد الگ الگ ہے:
1-خفیف ستر: سات سال کی عمر سے لے کر دس سال کی عمر تک کے بچے کا ستر ہے، اس میں صرف اگلی اور پچھلی شرمگاہ آتی ہیں۔
2- درمیانہ ستر: یہ دس سال اور اس سے بڑی عمر کے بچے کا ستر ہے جو کہ ناف اور گھٹنے کا درمیانی حصہ ہے۔
3-غلیظ ستر: اس سے مراد بالغ اور آزاد عورت کا ستر ہے۔ نماز میں ہاتھ اور چہرے کے علاوہ عورت کا سارا جسم ہی ستر ہے، جبکہ قدموں کے ظاہر ہونے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔
تیسری اور چوتھی شرط: طہارت، یہ دو قسم کی ہوتی ہے: حدث سے پاکیزگی اور نجاست سے پاکیزگی
1- حدث اکبر اور اصغر سے پاکیزگی، لہذا اگر کوئی شخص بے وضو حالت میں نماز پڑھے تو اس کی نماز تمام علمائے کرام کے اجماع کے مطابق صحیح نہیں ہو گی؛ کیونکہ صحیح بخاری: (6954) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ : (اللہ تعالی تم میں سے کسی بے وضو ہونے والے کی نماز اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ وضو نہ کر لے)
2- نجاست سے طہارت، چنانچہ اگر کوئی شخص ایسی حالت میں نماز ادا کرے کہ اسے نجاست لگی ہوئی ہو اور اسے اس نجاست کا علم بھی ہو تو اس کی نماز صحیح نہیں ہو گی۔
نمازی کو نجاست سے تین جگہوں میں بچنا چاہیے:
پہلی جگہ: بدن، لہذا پورے بدن پر کوئی نجاست نہ لگی ہوئی ہو، اس کی دلیل صحیح مسلم: (292) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ان دنوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، لیکن انہیں کسی بہت بڑے گناہ میں عذاب نہیں دیا جا رہا ، ان میں سے ایک چغلی کیا کرتا تھا، اور دوسرا شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔۔۔) الحدیث
دوسری جگہ: لباس، اس کی دلیل صحیح بخاری: (227) میں سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، آپ کہتی ہیں: (ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: ہم میں سے کسی کو حیض آ جاتا ہے اور وہ کپڑے کو لگ جائے تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اسے کھرچ لے، اور پانی سے مل لے اور اس پر پانی بہا لے، اور نماز پڑھ لے۔)
تیسری جگہ: نماز کی جگہ پاک ہو، اس کی دلیل صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (ایک بدو شخص نے مسجد میں آ کر مسجد کے کونے میں پیشاب کر دیا، تو لوگوں نے اسے روکا ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو روکنے سے منع کیا، پھر جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی سے بھرے ہوئے ایک ڈول کا حکم دیا اور اس پر بہا دیا گیا۔)
پانچویں شرط:
قبلہ رخ ہونا، چنانچہ اگر کوئی شخص قبلہ سمت چھوڑ کر کسی اور سمت میں نماز ادا کرے حالانکہ وہ قبلہ رخ ہونے پر قادر بھی ہو تو اس کی نماز علمائے کرام کے اجماع کے مطابق باطل ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ
ترجمہ: اپنا چہرہ مسجد الحرام کی جانب پھیر لے، اور تم جہاں بھی ہو تو تم اپنے چہروں کو اسی کی طرف پھیر لو۔[البقرة:144]
اور اسی طرح نماز میں غلطی کرنے والے کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (پھر قبلہ رخ ہو جاؤ اور تکبیر کہو۔) بخاری: (6667)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (65853 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چھٹی شرط:
نیت، چنانچہ اگر کوئی شخص بغیر نیت کے نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے، جیسے کہ صحیح بخاری: (01) میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (یقیناً اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور یقیناً ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔) چنانچہ اللہ تعالی کسی بھی عمل کو نیت کے بغیر قبول نہیں فرماتا۔
سابقہ تمام چھ شرائط نماز کے ساتھ خصوصی طور پر منسلک ہیں، یہاں قبولیتِ عبادت کی عمومی شرائط بھی شامل ہوں گی، جو کہ درج ذیل ہیں:
اسلام، عقل، اور شعور
اس بنا پر نماز کے صحیح ہونے کی کل شرائط 9 ہوئیں۔
اسلام، عقل، شعور، وضو، نجاست سے پاکی، ستر ڈھانپنا، وقت کا شروع ہونا، قبلہ رخ ہونا اور نیت کرنا۔
واللہ اعلم