اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قبلہ رخ ہونے كى شرط ساقط ہونے والى حالتيں

سوال

وہ كونسى حالتيں ہيں جن ميں قبلہ رخ ميں تبديلى ممكن ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شائد سائل يہ معلوم كرنا چاہتا ہے كہ كن حالات ميں نماز ميں استقبال قبلہ ساقط ہوتا ہے، اور قبلہ رخ كى بجائے كسى اور طرف رخ كر كے نماز ادا كرنا صحيح ہے.

" نماز صحيح ہونے كى شروط ميں استقبال قبلہ يعنى قبلہ رخ ہو كر نماز ادا كرنا شرط ہے، اس كے ليے بغير نماز صحيح نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجيد ميں اس حكم كو تكرار سے بيان كيا ہے:

اور آپ جہاں بھى جائيں اپنا چہرہ مسجد حرام كى طرف پھير ليں اور آپ جہاں بھى ہو اپنے چہرے اس كى جانب پھير لو البقرۃ ( 144 ).

يعنى قبلہ كے رخ كى جانب اپنا رخ كرو.

جب نبى كريم صلى اللہ عليہ سلم مكہ سے ہجرت كر كے مدينہ تشريف لائے تو شروع ميں بيت المقدس كى جانب رخ كر كے نماز ادا كرتے رہے، چنانچہ كعبہ كو اپنے پيچھے اور اپنا رخ شام كى طرف كرتے ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس انتظار ميں رہتے كہ اللہ تعالى كب اس كے علاوہ دوسرا حكم ناز فرمائيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بار بار اپنا چہرہ آسمان كى طرف كرتے اور استقبال قبلہ كى وحى لے كر جبريل امين عليہ السلام كے نازل ہونے كا انظار كرنے لگے:

جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

ہم آپ كا چہرہ بار بار آسمان كى طرف اٹھتا ہوا ديكھ ہيں، اب ہم آپ كو اس قبلہ كى جانب پھير دينگے جس سے آپ خوش ہو جائينگے، آپ اپنا چہرہ مسجد حرام كى جانب پھير ليں البقرۃ ( 144 ).

چنانچہ اللہ تعالى نے مسجد حرام كى جانب رخ كرنے كا حكم ديا، يعنى مسجد حرام كے رخ كى جانب اپنا رخ كريں، ليكن اس ميں سے تين مسائل مستثنى ہيں:

پہلا مسئلہ:

جب كوئى شخص استقبال قبلہ سے عاجز ہو، مثلا مريض جو اپنا چہرہ قبلہ رخ نہ كر سكتا ہو، تو اس سے اس حالت ميں استقبال قبلہ ساقط ہو جائيگا كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كا تقوى حسب استطاعت اختيار كرو التغابن ( 16 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:

" جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو اپنى استطاعت كے مطابق اس پر عمل كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7288 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1337)

دوسرا مسئلہ:

جب انسان شديد قسم كى حالت خوف ميں ہو، مثلا دشمن يا كسى درندے يا پھر غرق كر دينے والے سيلاب سے بھاگنے والا شخص، تو يہاں اس كا رخ جس طرف بھى ہو وہ نماز ادا كر لے.

اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

اور اگر تمہيں خوف ہو تو پيدل ہى سہي، يا سوار ہى سہى، اور جب امن ہو جائے تو اللہ تعالى كا ذكر اسى طرح كرو جس طرح اس نے تمہيں تعليم دى ہے جسے تم جانتے ہى نہ تھے البقرۃ ( 239 ).

يہاں اللہ تعالى كا فرمان:

اور اگر تم خوف كى حالت ميں ہو.

يہ عام ہے اور كسى بھى قسم كے خوف كو شامل ہے.

اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جب تم امن ميں ہو جائے تو اللہ تعالى كا ذكر اسى طرح كرو جس طرح اس نے تمہيں تعليم دى ہے جسے تم جانتے ہى نہ تھے البقرۃ ( 239 ).

يہ اس بات كى دليل ہے كہ خوف كى بنا پر اللہ تعالى كا ذكر ترك كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ميں استقبال قبلہ بھى شامل ہوتا ہے.

اور مندرجہ بالا دونوں آيتيں احاديث اس پر بھى دلالت كرتى ہيں كہ يہ وجوب استطاعت كے ساتھ معلق ہے.

تيسرا مسئلہ:

دوران سفر گاڑى يا ہوائى جہاز، يا اونٹ وغيرہ پر نفلى نماز ميں چنانچہ وہ اس حالت ميں جس طرف بھى سوارى كا رخ ہو نماز ادا كر سكتا ہے. مثلا وتر، اور قيام الليل، اور چاشت كى نماز وغيرہ.

مسافر كو بھى مقيم كى طرح سب نوافل ادا كرنے چاہيں صرف رواتب ميں اس كے ليے چھوٹ ہے، مثلا ظہر اور مغرب اور عشاء كى سنت مؤكدہ ترك كرنے كى اجازت ہے.

چنانچہ جب وہ سفر كى حالت ميں نفل ادا كرنا چاہے تو سوارى كا جس طرف بھى رخ ہو نماز ادا كر سكتا ہے، صحيحين ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا كرنا ثابت ہے.

چنانچہ ان تين مسائل ميں استقبال قبلہ واجب نہيں.

رہا جاہل كا مسئلہ تو اس كے ليے نماز ميں قبلہ رخ ہونا واجب ہے، ليكن اگر وہ قبلہ رخ تلاش كرنے كى كوشش اور جدوجھد كر كے نماز ادا كرے اور بعد ميں اس كا اجتھاد غلط ثابت ہو تو اس پر نماز كا اعادہ نہيں ہوگا.

ليكن ہم يہ نہيں كہہ سكتے كہ اس سے استقبال قبلہ ساقط ہو گيا ہے، بلكہ اس كے ليے استقبال قبلہ واجب ہے، اور وہ اس رخ كو تلاش كرنے ميں حسب وسعت كوشش اور جدوجھد كرےگا، چنانچہ جب وہ بقدر استطاعت تلاش كرے اور بعد ميں اسے يہ وجہت غلط معلوم ہو تو ادا كردہ نماز نہيں لوٹائےگا اس كى دليل وہ صحابہ كرام ہيں جنہيں قبلہ تبديل ہونے كا علم نہ تھا اور وہ مسجد قبا ميں ايك روز فجر كى نماز ادا كر رہے تھے كہ ايك شخص آيا اور كہنے لگا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآن مجيد نازل ہوا ہے، اور انہيں كعبہ كى طرف رخ كرنے كا حكم ديا گيا ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے چہرے كعبہ كى طرف كر ليے ان كے چہرے نماز شام كى طرف تھے تو وہ كعبہ كى طرف گھوم گئے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 403 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 526 ).

حالانكہ كعبہ ان كے پيچھے تھا تو انہوں نے اپنا رخ كعبہ كى طرف كرنے كے ليے نماز ميں ہى گھوم گئے اور اپنى نماز جائى ركھى، يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ہوا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس پر انكار نہيں كيا، چنانچہ يہ مشروع ہو گا، يعنى اگر انسان جہالت كى بنا پر قبلہ رخ ميں غلطى كرے تو اس كى نماز ميں اعادہ نہيں ہوگا.

ليكن اگر اسے صحيح رخ كا علم ہو جائے چاہے دوران نماز ہى معلوم ہو تو اس پر قبلہ كى طرف رخ كرنا واجب ہے.

چنانچہ استقبال قبلہ نماز صحيح ہونے كى شروط ميں سے ايك شرط ہے تين مواقع كے علاوہ اس كے بغير نماز صحيح نہيں ہو گى، يا پھر انسان قبلہ رخ تلاش كرنے كے بعد اجتھاد ميں غلطى كر بيٹھے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 12 / 433 - 435 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب