"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
صوفیوں کے متعدد فرقے، گروہ، اور دھڑے بندیاں ہیں، اور ہرگروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اس سے خوش اور مطمئن نظر آتا ہے، طریقت کے ہرسلسلے کا ایک شیخ، مخصوص ورد اور وظائف، رسم و رواج ہوتے ہیں، لیکن ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ سب کچھ کتاب و سنت کے صحیح فہم سے کوسوں دور ، اور بدعات و خرافات سمیت خود ساختہ عبادات کی ترویج میں خوب مگن ہوتے ہیں ، اور کچھ غلو کرتے ہوئے اتنا آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ نظریاتی یا عملی شرک میں مبتلا ہیں ، مثلاً: عقیدہ وحدۃ الوجود، دنیا کے معاملات چلانے کیلئے اولیاء اور اقطاب کے پاس اختیارات کا عقیدہ، دعا، نذر و نیاز، جانور ذبح کرنے اور طواف وغیرہ کے ذریعے اولیاء کی عبادتایسے امور ہیں جو ان میں عام پائے جاتے ہیں۔
سابقہ زمانے کا تصوف سیدھے راستے سے اس قدر منحرف نہیں تھا، اور نہ ہی اس کا قابل ذکر خطرہ تھا، بلکہ تصوف سے بعض اوقات زہد، تقوی، پرہیز گاری، اور ناز و نعم سے دوری مراد لیا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ کچھ عبادت گزار علمائے کرام کو بھی تصوف کی طرف منسوب کیا گیا ہے، حالانکہ انکا منہج اور عقیدہ صحیح سلامت تھا۔
اس تناظر میں ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ عقیدہ توحید مضبوط بنائے،کتاب و سنت کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھے، بدعات اور خود ساختہ امور سے بچے، کیونکہ راہِ نجات یہی ہے۔
امام احمد نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ ایک سیدھا خط کھینچا، اور فرمایا: (یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے) پھر اس خط کے دائیں اور بائیں خطوط کھینچے، اور فرمایا: (یہ مختلف راستےہیں، اور ان میں ہر راستے کی طرف دعوت دینے کیلئے شیطان بیٹھا ہوا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ( وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ )[بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے، چنانچہ تم اسی کی پیروی کرو، اور کسی اور راستے کی پیروی مت کرو، ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے]" اس حدیث کو البانی نے "التوسل" ( ص / 125) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح ابو داود : (4607) ، ترمذی: (2676) ، اور ابن ماجہ: (44) میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہےگا تو وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا، پس تم میری ، اور خلفائے راشدین کی سنت پر کار بند رہنا، اسے انتہائی مضبوطی سے تھامنا، اور اپنے آپ کو خود ساختہ امور سے بچانا، کیونکہ [دین] میں ہر خود ساختہ بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے) اسے البانی نے صحیح ابو داود : (3851)میں صحیح قرار دیا ہے۔
قرآن و سنت کا بغور مطالعہ، خلفائے راشدین کی سیرت پر غور و فکر ، اور پہلی تین ہدایت یافتہ صدیوں کے حالات پرکھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صوفیوں کے ہاں شخصیت پرستی، مردوں کی عبادت، خود ساختہ وظائف و اوراد، اور خرافات کی نشر و اشاعت سب کچھ باطل پر مبنی ہے، باقی ہدایت دینے والی ذات اللہ کی ہے، اسی نے فرمایا:
( وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ )
ترجمہ: جس کو اللہ نور سے نہ نوازے ، اس کیلئے کوئی نور نہیں ہے۔ [النور:40]
مزید فائدے کیلئے سوال نمبر: (4983) ،(20375) ،(34575) اور (89961) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.