"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ازدواجى زندگى ميں استقرار اسى وقت پيدا ہوتا ہے جب خاوند اور بيوى آپس ميں محبت و مودت اور الفت پيار اور خير و بھلائى ميں دنيا و آخرت كے معاملات ميں ايك دوسرے كے تعاون پر اكٹھے رہيں.
يہ كوئى ازدواجى زندگى نہيں كہ آپ كسى اور ملك ميں رہيں اور آپ كا خاوند دوسرے ملك ميں رہتا ہو، اس طرح تو نہ وہ وہ آپ كے حقوق ادا كر سكےگا اور نہ ہى آپ اس كے حقوق حسن سلوك سے ادا كر سكتى ہيں، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو دونوں كو حسن سلوك اور اچھے طريقہ سے بود و باش اختيار كرنے كا حكم ديا ہے، اور يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب خاوند اور بيوى اكٹھے رہيں.
اس ليے آپ خاندان كو جمع كرنے كى كوشش كريں تا كہ محبت و الفت اور مودت قائم ہو سكے.
اور اگر آپ كے خاوند كا آپ كے پاس لندن ميں آنے كا معنى يہ ہو كہ آپ مرد و عورت كے مخلوط ماحول ميں ملازمت اختيار كريں اور آپ كا خاوند بغير ملازمت كے رہے تو يہ حرام ہے كيونكہ مرد و عورت كے مخلوط ماحول ميں عورت كے ليے ملازمت كے حرام ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اور خاندان كے افراد كے دين اور اخلاق پر اس كا بہت برا اثر پڑتا ہے.
اس ليے جب آپ كا خاوند پاكستان ميں آپ كے نان و نفقہ اور دوسرے اخراجات برداشت كرنے كى استطاعت ركھتا ہے تو پھر آپ دونوں كو پاكستان ميں رہنا افضل و بہتر ہے.
رہا يہ كہ آپ كے خاوند كے پاس جانے اخراجات كون برداشت كرے تو يہ بھى خاوند كے ذمہ ہيں، بلكہ اگر اس كے ليے آسانى ہو كہ وہ آپ كو لندن سے آ كر پاكستا لے جا سكتا ہے تو پھر اسے لندن آ كر آپ كو لے جانا چاہيے تا كہ آپ بغير محرم سفر كرنے سے بچ سكيں.
خاوند كے پاس جانے كے ليے ٹكٹ كى قيمت آپ كے ليے مانع نہيں ہونى چاہيے كہ ٹكٹ كے اخراجات آپ دونوں كے اكٹھا ہونے ميں حائل ہو جائيں اور عليحدگى كى زندگى بسر كرتى پھريں.
رہا مسئلہ برطانوى حكومت كى جانب سے آپ كو جو بےروزگارى الاؤنس ملتا ہے وہ شروط پر منحصر ہوگا كہ وہ الاؤنس حاصل كرنے كے ليے انہوں نے كيا شروط مقرر كر ركھى ہيں، اگر آپ ان شروط كے ہوتے ہوئے حاصل كريں تو ٹھيك ہے وگرنہ صحيح نہيں.
رہى آپ كى اپنے پہلے خاوند سے بيٹى كے اخراجات كا مسئلہ تو آپ كے موجودہ خاوند كے ذمہ نہيں ہيں، كيونكہ وہ اس كا باپ نہيں ہے، بلكہ بچى كے سارے اخراجات اس كے والد كے ذمہ ہيں اور وہ اپنى استطاعت كے مطابق بچى پر خرچ كريگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
وسعت و خوشحالى والا اپنى وسعت كے مطابق خرچ كرے اور جو تنگ دست ہو وہ اللہ تعالى كے ديے گئے رزق سے خرچ كرے، ہر ايك كو اتنا ہى مكلف كيا جائگا جتنا اسے ديا گيا ہے، عنقريب اللہ تعالى تنگى كے بعد آسانى پيدا كر ديگا الطلاق ( 7 ).
واللہ اعلم .