"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہمارے ملك ميں قانون ہے كہ جب خاوند فوت ہو جائے تو بيوى كو گورنمنٹ سے ماہانہ وظيفہ لينے كا حق حاصل ہے ليكن اگر وہ كسى اور شخص سے شادى كر لے تو يہ وظيفہ بند كر ديا جاتا ہے، اس ليے كچھ بيوائيں جب دوسرى شادى كر ليتى ہيں تو وہ اپنا وظيفہ قائم ركھنے كے ليے نكاح كى توثيق نہيں كراتيں.
ليكن يہ عقد نكاح شرعى طور پر صحيح ہوتا ہے جس ميں گواہ اور ولى موجود ہوتے ہيں اور اس كا اعلان بھى كيا جاتا ہے، ليكن گورنمنٹ كے ہاں اس عقد نكاح كى بنا پر بيوى كو كوئى حقوق حاصل نہيں ہوتے.. لہذا اگر اس كا خاوند فوت ہو جائے تو وہ اس كى وارث نہيں بنےگى اور اگر اسے طلاق دے دے تو اسے نفقہ حاصل نہيں ہوگا، گورنمنٹ اس شادى كو نسب كے علاوہ كہيں تسليم نہيں كرتى.
ہم قبائلى معاشرے ميں نہيں رہتے كہ قبيلہ حقوق كى حفاظت كرتا ہو.. مجھے علم ہے كہ دوسرى شادى كرنے كے بعد بيوى جو وظيفہ حاصل كر رہى ہے وہ حرام ہے، ليكن غير موثوق شادى كا حكم كيا ہوگا ؟.
الحمد للہ.
اول:
اگر تو گورنمنٹ وظيفہ صرف بيوہ كو ديتى ہے كہ اگر وہ دوسرى شادى كر لے تو يہ وظيفہ ختم كر ديا جاتا ہے تو پھر اسے حاصل كرنے كے ليے حيلہ سازى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنا حرام طريقہ سے مال حاصل كرنے كے مترادف ہوگا.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم اپنے مال آپس ميں باطل طريقہ سے مت كھاؤ النساء ( 29 ).
دوم:
شادى صحيح ہونے كے ليے شرط يہ ہے كہ خاوند اور بيوى دونوں كى رضامندى شامل ہو، اور عورت كے ولى اور دو عادل مسلمان گواہوں كى موجودگى ميں كى جائے اور خاوند اور بيوى ميں كوئى ايسى چيز نہ پائى جاتى ہو جو شادى ميں مانع ہو.
لہذا جب يہ شروط پائى جائيں اور عقد نكاح ميں عورت كے ولى اور خاوند كے مابين ايجاب و قبول ہو تو نكاح ہو جائيگا.
رہا مسئلہ سركارى ادارہ سے اس كى توثيق كرانا تو يہ صرف حقوق كى حفاظت اور اختلافات كو ختم كرانے كے ليے ہے.
ہميں ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ ذمہ دارى كے عدم ثبوت اور دين كى قلت كى بنا پر اس وقت توثيق كرانا واجب ہے، اور اس ليے بھى كہ نكاح كى توثيق نہ كرانے كے نتيجہ ميں حقوق ضائع ہو جاتے ہيں مثلا وراثت اور باقى مانندہ مہر اور نان و نفقہ اور بيوى اور اولاد پر ولايت و ذمہ دارى جيسے حقوق كى پاسدارى نہيں كى جاتى.
پھر يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اگر نكاح كى توثيق نہيں كرائى گئى تو خاوند اپنى بيوى كے ساتھ برا سلوك كرےگا اور اسے تنگ كرتے ہوئے اسے طلاق دينے سے انكار كر كے معلق چھوڑ دے گا، اس طرح وہ شرعى طور پر كسى دوسرے شخص سے شادى نہيں كر سكےگى، اور نہ ہى وہ عدالت سے رجوع كر سكتى ہے كہ عدالت خاوند طلاق دينے پر مجبور كرے كيونكہ اس كا تو نكاح ہى رجسٹر نہيں ہوا.
اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ بيوى كسى دوسرے شخص كى جانب مائل ہو كر اس سے شادى كر لے اور اپنے خاوند كو چھوڑ دے جو اسے واپس لانے كى استطاعت ہى نہ ركھے كيونكہ نكاح رجسٹر ہى نہيں ہوا.
اور پھر ايسے بہت سارے واقعات پائے جاتے ہيں كہ گندے ضمير اورغلط ذہن كے لوگوں نے بغير توثيق اور نكاح رجسٹر كرائے شادى كر لى اور پھر بيوى اور اولاد سے برات كا اظہار كر ديا جس كى بنا پراولاد اس كى طرف منسوب ہى نہ كى جا سكى.
ان وجوہات كى بنا پر ظاہر يہى ہوتا ہے كہ نكاح كى توثيق اور اسے رجسٹر كرانا واجب ہے.
واللہ اعلم .