الحمد للہ.
اول:
اگر تو گورنمنٹ وظيفہ صرف بيوہ كو ديتى ہے كہ اگر وہ دوسرى شادى كر لے تو يہ وظيفہ ختم كر ديا جاتا ہے تو پھر اسے حاصل كرنے كے ليے حيلہ سازى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنا حرام طريقہ سے مال حاصل كرنے كے مترادف ہوگا.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم اپنے مال آپس ميں باطل طريقہ سے مت كھاؤ النساء ( 29 ).
دوم:
شادى صحيح ہونے كے ليے شرط يہ ہے كہ خاوند اور بيوى دونوں كى رضامندى شامل ہو، اور عورت كے ولى اور دو عادل مسلمان گواہوں كى موجودگى ميں كى جائے اور خاوند اور بيوى ميں كوئى ايسى چيز نہ پائى جاتى ہو جو شادى ميں مانع ہو.
لہذا جب يہ شروط پائى جائيں اور عقد نكاح ميں عورت كے ولى اور خاوند كے مابين ايجاب و قبول ہو تو نكاح ہو جائيگا.
رہا مسئلہ سركارى ادارہ سے اس كى توثيق كرانا تو يہ صرف حقوق كى حفاظت اور اختلافات كو ختم كرانے كے ليے ہے.
ہميں ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ ذمہ دارى كے عدم ثبوت اور دين كى قلت كى بنا پر اس وقت توثيق كرانا واجب ہے، اور اس ليے بھى كہ نكاح كى توثيق نہ كرانے كے نتيجہ ميں حقوق ضائع ہو جاتے ہيں مثلا وراثت اور باقى مانندہ مہر اور نان و نفقہ اور بيوى اور اولاد پر ولايت و ذمہ دارى جيسے حقوق كى پاسدارى نہيں كى جاتى.
پھر يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اگر نكاح كى توثيق نہيں كرائى گئى تو خاوند اپنى بيوى كے ساتھ برا سلوك كرےگا اور اسے تنگ كرتے ہوئے اسے طلاق دينے سے انكار كر كے معلق چھوڑ دے گا، اس طرح وہ شرعى طور پر كسى دوسرے شخص سے شادى نہيں كر سكےگى، اور نہ ہى وہ عدالت سے رجوع كر سكتى ہے كہ عدالت خاوند طلاق دينے پر مجبور كرے كيونكہ اس كا تو نكاح ہى رجسٹر نہيں ہوا.
اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ بيوى كسى دوسرے شخص كى جانب مائل ہو كر اس سے شادى كر لے اور اپنے خاوند كو چھوڑ دے جو اسے واپس لانے كى استطاعت ہى نہ ركھے كيونكہ نكاح رجسٹر ہى نہيں ہوا.
اور پھر ايسے بہت سارے واقعات پائے جاتے ہيں كہ گندے ضمير اورغلط ذہن كے لوگوں نے بغير توثيق اور نكاح رجسٹر كرائے شادى كر لى اور پھر بيوى اور اولاد سے برات كا اظہار كر ديا جس كى بنا پراولاد اس كى طرف منسوب ہى نہ كى جا سكى.
ان وجوہات كى بنا پر ظاہر يہى ہوتا ہے كہ نكاح كى توثيق اور اسے رجسٹر كرانا واجب ہے.
واللہ اعلم .