"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
گاؤں والوں کی طرف سے تحفے کے بارے میں قدرے تفصیل ہے:
1-
اگر یہ تحفہ ایسے گھرانوں کی طرف سے ہوتا ہے جن کے بچے آپ کے پاس
پڑھتے ہیں تو پھر اسے قبول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے عین خدشہ موجود ہے کہ
دل مخصوص طلاب کی جانب مائل ہو جائے گا، اور اس طرح استاد اپنے شاگردوں میں عدل و
انصاف باقی نہیں رکھ پائے گا۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (82386)
کا جواب ملاحظہ کریں۔
2- اور اگر یہ تحفہ ایسے شخص کی طرف سے ہےجس کے بچے آپ کے پاس نہیں پڑھتے ، یا گاؤں والوں کی طرف سے استاد کے احترام میں بطور عزت افزائی کے دیا جاتا ہے، اور ان تحائف کی وجہ سے طلاب کیساتھ تعلق میں کوئی فرق بھی پیدا نہیں ہوگا تو ایسی صورت میں تحائف قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوم:
اگر آپ دیئے جانے والا تیل کے بارے میں متردد ہیں کہ وہ زکاۃ میں سے ہوتا ہے یا محض تحفہ ہی ہوتا ہے، اور کیا آپ کو اس کی تفصیل پوچھنے کی ضرورت ہے ؟ تو اس بارے میں بھی قدرے تفصیل ہے:
1- اگر آپ زکاۃ کے مستحق بھی ہیں، اور آپ کیلئے گاؤں والوں سے تحفہ لینا بھی جائز ہے، تو اس صورت میں آپ بغیر وضاحت طلب کیے ان کے عطیات قبول کر سکتے ہیں۔
2- اگر آپ زکاۃ کے مستحق نہیں ہیں، اور نہ ہی آپ کیلئے گاؤں والوں سے تحفہ لینا جائز ہے تو پھر آپ ان کے عطیات قبول نہ کریں، تاہم انکار کرتے ہوئے اچھا انداز اپنائیں، تا کہ گاؤں والوں کیساتھ آپ کے تعلقات کمزور نہ پڑیں۔
3- اگر آپ زکاۃ کے تو مستحق ہیں لیکن گاؤں والوں سے تحفہ قبول نہیں کر سکتے ، یا اس کے برعکس صورت ہے ، تو پھر آپ ان سے وضاحت طلب کریں، تا کہ آپ کیلئے معاملہ واضح ہو اور اسی کے مطابق عمل کر سکیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ایک شخص کو کچھ رقم بطور تحفہ دی گئی اور لینے والے کو علم ہے کہ یہ زکاۃ ہے،
تو کیا اسے وصول کرنا جائز ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر مال وصول کرنے والا شخص زکاۃ کا مستحق ہے تو اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں
ہے، کیونکہ یہ مال اللہ تعالی کی طرف سے اس کیلئے حلال ہے "
مزید انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
"قابل غور بات صرف یہی ہے کہ رقم وصول کرنے والے کو علم ہے کہ یہ رقم زکاۃ کی ہے،
تو اگر وصول کرنے والا زکاۃ کا مستحق ہے تو اس کیلئے یہ رقم حلال ہے، اور اگر وہ
زکاۃ کا مستحق نہیں ہے تو پھر آپ اس رقم میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتے، جوآپ کیلئے
جائز ہی نہیں ہے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب"
ایک موقع پر شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ایسے لوگوں کی خطا پر تنبیہ کرتے ہوئے
فرمایا کہ جو زکاۃ کی رقم بطور تحفہ دیتے ہیں، اور وہ بھی جو زکاۃ نہ وصول کرنے
والے کسی شخص کو بغیر آگاہی کے زکاۃ دیتے ہیں ،چنانچہ آپ سے پوچھا گیا:
"کیا زکاۃ کو تحفہ یا ہدیہ ، یا تعاون کے نام پر دیا جا سکتا ہے؟ میرے ساتھ ایسا ہو
چکا ہے، تو اب میں کیا کروں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر زکاۃ کو تحفہ کا نام دیکر دیا جائے اور وصول کرنے والا بھی اسے تحفہ ہی سمجھے
تو پھر اس طرح زکاۃ ادا نہیں ہوگی؛ کیونکہ زکاۃ کو تحائف کا متبادل نہیں بنایا جا
سکتا، تاہم زکاۃ کو زکاۃ کی نیت سے دے سکتے ہیں، پھر اگر وصول کرنے والا زکاۃ کا
مستحق ہو اور وہ اسے وصول بھی کر لے تو زکاۃ ادا ہو جائے گی، اور اگر وصول کرنے
والا زکاۃ وصول نہ کرتا ہو، اور اسے بتلایا بھی نہ جائے کہ یہ زکاۃ ہے تو اس صورت
میں زکاۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ اسے یہ بتلانا لازمی ہوگا کہ یہ زکاۃ ہے، پھر آگے اس
کی مرضی وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے۔
بہت سے لوگ اس مسئلے میں غلطی کا شکار ہیں، چنانچہ اگر انہیں کوئی ایسا شخص ملے جو
زکاۃ وصول نہ کرتا ہو تو اسے تحفے کے نام پر زکاۃ دے دیتے ہیں، اور اسے یہ نہیں
بتلاتے کہ یہ زکاۃ ہے، کیونکہ اسے علم ہے کہ اگر اسے معلوم ہو گیا تو وصول کرنے سے
انکار کر دے گا، اسی لئے اس تعاون کی حقیقت نہیں بتلاتے ، یہ بات غلط ہے، اس لئے
دینے والے کو چاہیے کہ اگر لینے والا زکاۃ کے مال سے پرہیز کرتا ہے تو اسے بتا دے
کہ یہ زکاۃ ہے، پھر اس کی مرضی وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب"
اس صورت میں زکاۃ ادا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ: "اگر وہ شخص زکاۃ وصول نہیں کرتا تو اس طرح سے یہ رقم اِس شخص کی ملکیت میں ہی داخل نہیں ہوگی"
مزید کیلئے دیکھیں: "الشرح الممتع" (6/207)
واللہ اعلم.