الحمد للہ.
قرآن مجيد كى تعليم دينے والے مدرس اور معلم كو ہديہ دينے كے متعلق تفصيل ہے جس كا ماحاصل يہ ہے:
اول:
اگر تو مدرس طلباء كے ايك گروپ كو تعليم ديتا ہے اور انہيں سند اور نمبر ديتا ہو تو اس كے ليے كسى بھى طالب علم سے ہديہ قبول كرنا جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے سے اس كا اس طالب علم كى طرف ميلان قلب اور جھكاؤ ہوجائيگا، اور وہ وہ دوسروں پر اس طالب علم كو فضيلت دےگا، اور يہ چيز اس كے دل كو دوسروں پر خراب كر ديگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كچھ طالبات اپنى معلمات كو تقريبات ميں ہديہ ديتى ہيں اور ان ميں سے كچھ معلمات تو اب تك انہيں پڑھا رہى ہيں، اور كچھ نے پڑھانا چھوڑ ديا ہے، ليكن يہ احتمال ہے كہ آئندہ برسوں ميں وہ انہيں تعليم دينگى، اور كچھ كے متعلق يہ احتمال ہے كہ وہ نہيں پڑھائينگى مثلا وہ جو فارغ ہو چكى ہيں، تو ان حالات ميں ہديہ دينے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" تيسرى حالت ميں تو كوئى حرج نہيں، ليكن اس كے علاوہ دوسرے حالت ميں جائز نہيں، چاہے وہ ہديہ ان كے ہاں ولادت وغيرہ كے موقع پر ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ يہ ہديہ معلمہ كے ليے ميلان قلب كا باعث بنےگا.
شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
حفظ قرآن كريم كے خيراتى ادارہ كے ماتحت مدرسہ تحفيظ القرآن كى ايك معلمہ تعليم دينے كے عوض ميں كوئى اجرت اور تنخواہ نہيں ليتى اور سال كے آخر ميں تقريب اسناد كے بعد بعض طالبات اسے كچھ نہ كچھ بطور ہديہ پيش كرتى ہيں، جن ميں سونا وغيرہ بھى شامل ہوتا ہے، اس معلمہ كے ليے يہ ہديہ جات قبول كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اگر وہ طالبات سے يہ ہديہ قبول نہ كرے تو طالبات كا دل ٹوٹ جائيگا، اور وہ اپنے دل ميں درد محسوس كرينگى، كہ انہوں نے ہديہ پيش كيا تھا.
شيخ كا جواب تھا:
" اگر تو طالبہ نے اپنى تعليم مكمل كر لى ہے اور وہ اس مدرسہ اور سكول سے كہيں اور منتقل ہو جائيگى تو پھر يہاں رشوت كا شائبہ ختم ہو جائيگا، ليكن اگر اس كا تعليم تعلق باقى ہے تو پھر خدشہ ہے كہ يہ ہديہ اس كى معلمہ كے ليے اس طالبہ كى جانب ميلان قلب كا باعث ہو، جس كى بنا پر وہ اس كى كچھ غلطيوں سے چشم پوشى اور باقى طالبات كے مابين ناانصافى كرےگى.
دوم:
اگر طالب علموں كے مابين ايك دوسرے سے آگے نكلنے كا رجحان نہ ہو، اور ان طلبا كے مابين عدل و انصاف جيسى كوئى چيز متقاضى نہ ہو، مثلا يہ كہ مدرس صرف ايك ہى طالب علم كو تعليم ديتا ہو تو اس وقت طالب علم كا اپنے معلم كو ہديہ دينے كے مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.
بعض علماء نے تو حديث قوس سے استدلال كرتے ہوئے اس سے منع كيا ہے، حديث قوس درج ذيل ہے:
عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے اہل صفہ ميں سے كچھ افراد كو لكھنا پڑھنا اور قرآن مجيد كى تعليم دى، تو ان ميں سے ايك شخص نے مجھے ايك كمان بطور ہديہ ديا، تو ميں نے كہا: يہ مال تو نہيں، اور ميں اس كے ساتھ اللہ كى راہ ميں تير پھينكا كرونگا، اور ميں اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس جاكر ضرور دريافت كرونگا.
چنانچہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميں جنہيں تعليم ديا كرتا تھا ان ميں سے ايك شخص نے مجھے ايك كمان بطور ہديہ ديا ہے، اور يہ مال نہيں، اور ميں اس كے ساتھ جہاد فى سبيل اللہ ميں تير پھينكوں گا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر تو تم يہ پسند كرتے ہو كہ تمہيں آگ كا طوق پہنايا جائے تو اسے قبول كر لو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3416 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور كچھ علماء كرام نے اس كى اجازت ديتے ہوئے كہا ہے كہ اگر طالب اپنى رضامندى اور خوشى سے دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور انہوں نے قرآن مجيد كى تعليم دے كر مزدورى اور اجرت لينے والى احاديث سے استدلال كيا ہے.
جيسا كہ سردار كو ڈسنے اور اسے دم كرنے كے متعلق قصہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس پر تم مزدورى اور اجرت ليتے ہو اس ميں سب سے زيادہ حق والى چيز كتاب اللہ ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5737 ).
تو جب اجرت اور مزدورى لينى جائز ہے تو پھر ہديہ تو بالاولى لينا جائز ہوا.
اور انہوں نے مندرجہ بالا عبادہ بن صامت والى ( جس ميں كمان كا ذكر ہے ) حديث كو اس پر محمول كيا ہے كہ يہ اس وقت تھا جب لوگوں كو ايسے افراد كى ضرورت تھى كہ انہيں قرآن مجيد كى تعليم دى جائے تا كہ قرآن مجيد كى تعليم تجارت نہ بن جائے، اور اس طرح فقراء اور غريب قسم كے مسلمان قرآنى تعليم سے محروم رہ جائيں، اس تائيد اس سے بھى ہوتى ہے كہ يہ حديث اصحاب صفہ كى تعليم كے متعلق تھى، اور يہ سب كو معلوم ہے كہ اصحاب صفہ فقراء و غريب افراد پر مشتمل تھے جو لوگوں كے صدقہ و خيرات پر زندگى بسر كر رہے تھے، اور وہ اس كے مستحق تھے كہ انہيں مال ديا جائے نہ كہ ان سے ليا جائے.
ابن مفلح رحمہ اللہ " الآداب الشرعيۃ " ميں لكھتے ہيں:
" معلم كے متعلق ہمارے اصحاب كا كہنا ہے كہ: اگر تو اسے بلاشرط كوئى چيز دى جائے تو جائز ہے، اور امام احمد كى ظاہر كلام بھى يہى ہے، اور بعض علماء نے حديث قوس ( كمان والى حديث ) كى بنا پر اسے مكروہ جانا ہے "
ديكھيں: الآداب الشرعيۃ ( 1 / 298 ).
اور قيلوبى اور عميرۃ كے حاشيۃ ميں درج ہے:
" مفتى اور معلم چاہے وہ قرآن كى تعليم دينے والا معلم ہى ہو، اور واعظ و خطيب كو ہديہ دينا اور قبول كرنا مندوب ہے ليكن شرط يہ ہے كہ اگر يہ اللہ كى رضا كے ليے ديا گيا ہو، وگرنہ اسے قبول نہ كرنا اولى اور بہتر ہے، بلكہ اگر اسے معلوم نہ ہو كہ يہ راضى و خوشى ہے تو يہ حرام ہے " انتہى.
ديكھيں: حاشيۃ القيلوبى و عميرۃ ( 4 / 304 ).
قرآن مجيد كى تعليم دے كر اجرت لينے كے جواز كے متعلق تفصيل جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 20100 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
مندرجہ بالا سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر اس معلمہ نے اولى اور افضل پر عمل كرتے ہوئے اس نے طالبات كا ہديہ قبول نہ كر كے بہتر كيا ہے، اللہ تعالى اسے جزائے خير عطا فرمائے، اور اس كا حق تھا كہ وہ ہديہ قبول كرنے سے اپنے اندر خدشہ اور خوف محسوس كرے، كيونكہ دل كى جبلت اور عادت ميں داخل ہے كہ جو كوئى بھى اس كے ساتھ احسان كرے وہ اس كے ساتھ معلق ہو جاتا ہے، اور ايسا كرنے سے ايثار اور افضليت كى دعوت ملتى ہے، چاہے انسان كو اس كا شعور ہو يا نہ ہو.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے، اور اللہ تعالى كى كتاب اور اس پر عمل كرنے كى سعادت سے بہروہ ور كرے اور توفيق سے نوازے.
واللہ اعلم .