"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
پہلی بات:
سودی معاملات میں ملوّث ہونا جائز نہیں ہے، چاہے اس کے بارے میں آپ کا والد آپکو حکم ہی کیوں نہ کرے، اس لئے آپ پر یہ واجب تھا کہ جس وقت آپکو سودی لین دین کی حرمت کا علم ہوا تو آپ سودی کام چھوڑ دیتے، چاہے آپ کے کام چھوڑنے کی وجہ سے آپ کے والد ناراض ہو جاتے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کسی مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی) احمد: (1041)
آپ سے صرف انہیں سودی معاملات کے بارے میں پوچھا جائے گا، جو آپ نے خود طے کئے، یا ان میں آپ نے شراکت کی۔
اور اگر آپ کے والد نے خود سودی معاملات طے کئے ، اور آپکی طرف سے ان سودی معاملات میں کسی قسم کا کوئی تعاون شامل نہیں تھا، یا آپ اس میں خود شریک نہیں تھے، تو آپ سے ان کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا، چاہے جن کاروباری معاملات میں آپ نے تعاون پیش کیا ہے وہ اسی سودی قرض کی رقم پر قائم تھے۔
اس وقت آپ پر جو لازم ہے وہ یہ ہے کہ آپ سچی توبہ کریں، اور سر زد ہونے والی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کریں، اور آئندہ کسی بھی سودی لین دین میں ملوّث ہونے سےبچیں۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (95005) اور (162423) کا مطالعہ کریں
دوسری بات:
کسی مسلمان پر اسکی گاڑی یا گھر پر زکاۃ واجب نہیں ہے، بشرطیکہ یہ تجارتی مقاصد کیلئے نہ ہوں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان کے غلام، اور اسکے گھوڑے میں کوئی صدقہ [زکاۃ]نہیں ہے) بخاری: (1463) مسلم: (983)
مزید کیلئے سوال نمبر: (20057) کا مطالعہ کریں۔
تیسری بات:
سونے کے زیور سے زکاۃ ادا کرنے کے بارے میں وضاحت یہ ہے کہ: اگر یہ زیور ہر خاتون [آپکی بیوی اور والدہ]کی ملکیت ہے تو آپ اور آپ کے والد کیلئے اس میں کوئی حق نہیں ہے، چاہے یہ مکمل سونا آپ کے والد نے اپنے ذاتی مال سے خریدا ہو؛ کیونکہ انہوں نے یہ سونا اِن خواتین کو دے کر اپنی ملکیت سے خارج کر دیا ہے، اب انہیں اسے اپنی ملکیت میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔
اور اگر یہ زیور ابھی تک آپکے والد ہی کی ملکیت میں ہے، اور انہوں نے یہ سونا ان خواتین [اپنی بہو، اور بیوی] کو عاریۃً دیا تھا تو اس سارے سونے کو فروخت کر کے قرض خواہوں کے قرضے واپس کرنا واجب ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (غنی آدمی کا [قرضے کی ادائیگی سے]ٹال مٹول کرنا ظلم ہے) بخاری: (2288) مسلم: (1564)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص لوگوں کا مال واپس کرنے کی نیت سے لے تو اللہ تعالی اسکی ادائیگی [کیلئے مدد] فرماتا ہے، اور جو شخص لوگوں کا مال ہڑپ کرنے کی غرض سے لے تو اللہ تعالی اسکو تباہ کر دیتا ہے)بخاری: (2387)
چوتھی بات:
سونے کے زیور کی زکاۃ مالک کے ذمہ ہے، چنانچہ اگر آپکی بیوی نصاب کے برابر سونے کی مالک ہے تو اسی پر زکاۃ لازم ہوگی، اور سونے کا نصاب 85 گرام ہے، چاہے یہ سونا زیور کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں ، اور اگر آپکی بیوی کے پاس اس سونے کے علاوہ کوئی اور مال نہیں ہے ، اور اس سونے میں زکاۃ واجب ہو رہی ہے، تو اس سونے میں سے اتنی مقدار فروخت کرنا واجب ہے جس سے اسکی زکاۃ ادا ہوسکے۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (50273) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں، اور آپکی والدہ کیلئے بھی زکاۃ کے متعلق یہی حکم ہے۔
آپکی بیوی اور اسی طرح والدہ آپکے والد کو قرضہ کی ادائیگی کیلئے اپنی زکاۃ دے سکتی ہیں، اس بارے میں مزید تفصیلات کیلئے آپ سوال نمبر: (43207) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.