اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

حكم اور تعداد سے جاہل ہونے كى بنا پر بہت سے روزے چھوڑ ديے

15-11-2005

سوال 50692

بچھلے برسوں جب ميں اپنے خاندان والوں كے ساتھ تھى مجھے معلوم نہيں ميں نے كتنے روزے چھوڑے ہيں، كيونكہ ہم گاؤں ميں رہتے تھے، اور كوئى بھى روزوں كے مسائل نہيں جانتا تھا، ميں نے ان ايام كے روزے نہيں ركھے اور پھر ان ايام كى تعداد بھى معلوم نہيں، ميں نے ان ايام كے بدلے كچھ رقم دے دى ہے، كچھ مدت بعد مجھے ايك بہن سے معلوم ہوا كہ مجھے ان ايام كى قضاء ميں روزے ركھنا ہونگے، ليكن مجھے ان ايام كى تعداد كا علم نہيں لہذا مجھے كيا كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص پر ضرورى شرعى احكام كى تعليم حاصل كرنا واجب ہے چاہے وہ نظرياتى مثلا عقيدہ اور اصول دين كے متعلقہ ہوں، يا پھر عملى ہوں مثلا طہارت و پاكيزگى اور نماز وغيرہ، اور اگر وہ صاحب مال ہے تو زكاۃ كے مسائل، اور اگر تاجر ہے تو اسے خريد وفروخت اور تجارت كے احكام معلوم كرنا چاہيں، اور اسى طرح جب رمضان المبارك كا مہينہ قريب آئے تو مكلف مسلمان كو روزوں كے مسائل كى تعليم حاصل كرنى چاہيےن چاہے وہ روزے ركھنے سے عاجز بھى ہو؛ تا كہ اسے يہ علم ہو سكے كہ روزے كے بدلے ميں اس پر كيا واجب ہوتا ہے.

اس ليے آپ اور آپ كے گھر والوں كو اس سلسلسہ ميں سوال اور طلب علم ميں كوتاہى پر اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كرنى چاہيے.

اور روزوں كے بدلے مال دينا جائز نہيں حتى كہ وہ لاعلاج مريض بھى جو روزے نہ ركھ سے وہ بھى مال نہيں دے سكتا، كيونكہ ان پر روزہ نہ ركھنے كى صورت ميں ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا دينا واجب ہے، اور چھوڑے ہوئے روزوں كے بدلے ميں ـ كھانے كے بدلے ـ مال دينا كفائت نہيں كرے گا.

تو اس بنا پر ہميں اميد ہے كہ آپ نے جو مال ادا كيا ہے وہ صدقہ ہے اس كا اجر ان شاء اللہ آپ كو روز قيامت ملے گا.

اور جن ايام كے آپ نے روزے نہيں ركھے ان كى قضاء ميں روزے ركھنے واجب ہيں، اور اس ميں حساب لگا كر يقينى عدد نكالنا ممكن ہے، ليكن اگر آپ ايسا نہ كر سكيں تو پھر ظن غالب كے مطابق حساب لگائيں، اگر ظن غالب يہ ہو كہ مثلا وہ تيس ايام ہيں تو آپ كے ذمہ ان تيس ايام كے روزے ركھنا واجب ہيں، اور ايسے ہى اگر كم يا زيادہ ہوں.

اور پھر اللہ تعالى كسى نفس كواس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).

اور ان روزوں ميں يہ واجب نہيں كہ آپ تسلسل كے ساتھ روزے ركھيں بلكہ حسب استطاعت اور طاقت ايك ايك دو دو كر كے ركھے جاسكتے ہيں ليكن ان روزوں كى قضاء ميں جلد كريں تا كہ دوبارہ اس ميں تاخير نہ ہو.

اور آپ پہلے رمضان كى قضاء كے روزے پہلے ركھيں، تا كہ اس كے رزوں سے قبل دوسرا رمضان شروع نہ ہو.

بعض اہل علم نے بيان كيا ہے كہ روزوں ميں تاخير كرنے كى بنا پر آپ پر ہر ايك روزے كے ساتھ ايك مسكين كو كھانا بھى دينا ہو گا، ليكن راجح يہى ہے كہ صرف روزے ركھنا واجب ہيں، اور خاص كر اگر آپ فقير ہيں، ليكن اگر روزوں كے ساتھ كھانا بھى ديں تو يہ بہتر ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 39742 ) اور ( 26212 ) اور ( 40695 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

يہ تو اس وقت ہے جب آپ نے روزے كسى شرعى عذر مثلا حيض وغيرہ كى بنا پر نہ ركھيں ہوں، ليكن اگر آپ نے روزے بغير كسى عذر كے چھوڑے ہوں تو آپ پر قضاء نہيں بلكہ آپ اس سے توبہ و استغفار اور اعمال صالحہ كثرت سے كريں، اور ان ايام كے عوض نفلى روزے ركھيں.

اس مسئلہ كو ہم نے سوال نمبر ( 50067 ) كے جواب ميں بيان كيا ہے اور اہل كے فتوى جات بھى ذكر كيے ہيں، لہذا آپ اس جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

روزوں کی قضا
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔