"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا مرد كے ليے چاندى كے زيورات مثلا ہار اور انگوٹھى وغيرہ پہننا جائز ہيں ؟
الحمد للہ.
چاندى كى انگوٹھى مرد كے ليے پہننا مباح ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں.
ا ـ انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے روم كے بادشاہ كو خط لكھنا چاہا تو آپ سے عرض كيا گيا كہ وہ مہر كے بغير كوئى خط نہيں پڑھتے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاندى كى انگوٹھى بنوائى گويا كہ ميں اب بھى آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاتھ ميں ا سانگوٹھى كى سفيدى كو ديكھ رہا ہوں، اور اس انگوٹھى ميں محمد رسول اللہ منقوش تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5537 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2092 ).
ب ـ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بھى اسى طرح مروى ہے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5528 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2091 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ مرد كے ليے چاندى پہننے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" باتفاق علماء كرام مرد كے ليے چاندى كى انگوٹھى پہننا مباح ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے چاندى كى انگوٹھى بنوائى تھى، اور صحابہ كرام نے بھى چاندى كى انگوٹھياں بنوا كر پہنى تھيں.
ليكن مرد كے ليے سونے كى چاندى پہننى آئمہ اربعہ كے اتفاق كے مطابق حرام ہے، كيونكہ صحيح حديث سے ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے سونا مردوں كو سونا پہننے سے منع كيا ہے...
رہا چاندى پہننے كا مسئلہ تو جب اس ميں تحريم كا عام لفظ نہيں ہے، تو كسى ايك كو بھى يہ حق نہيں كہ وہ اس ميں سے حرام قرار دے، مگر جس كى حرمت پر شرعى دليل ثابت ہو جائے؛ چنانچہ جب سنت ميں چاندى كى انگوٹھى كى اباحت آئى ہے تو يہ اس كے مباح ہونے كى دليل ہے... اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 25 / 63 - 65 ).
= رہا ہار پہننے كا مسئلہ تو مرد كے ليے ہار پہننا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں عورتوں سے مشابہت ہوتى ہے، اور كوئى دليل نہيں ملتى جس سے مرد كے ليے چاندى كے ہار پہننے مباح ہوں.
اور پھر كلائى اور گردن اور كان ميں زينت والى اشياء اور زيور پہننا يہ عورتوں كے ساتھ مشابہت ہے، اور يہ عورتوں كے ساتھ ہى مخصوص ہے، اس ليے مردوں كے ليے نہ تو چوڑياں اور كنگن پہننے جائز ہيں، اور نہ ہى كانوں ميں بالياں اور كانٹے، اور نہ ہى پازيب اور ہار وغيرہ.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 4021 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .