"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
شريعت ربانيہ ايسے قانون لائى ہے جو انسان كى ضروريات خمس يعنى دين، عقل اور مال و عزت، اور جان كى حفاظت كرتے ہيں، اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ ٹريفك قانون كے اصول و ضوابط كا التزام اور احترام كرنا جان و مال كى حفاظت ميں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے.
اس بنا پر شريعت اسلاميہ مسلمانوں كا ان قوانين اور اصول و ضوابط پر التزام كرنے كا پابند كرتى ہے، اور خاص كر وہ اصول و ضوبط جو شريعت اسلاميہ سے متصادم و مخالف نہيں، بلكہ صرف لوگوں كى جان و مال اور ان كى امتلاك محفوظ ركھنے كے ليے ہيں.
اور پھر ان ٹريفك قوانين كى خلاف ورزى كا نقصان اور ضرر صرف اكيلے ڈرائيور كو ہى نہيں ہوتا بلكہ يہ تو تجاوز كر كے اس كے علاوہ دوسرے لوگوں كو بھى نقصان ديتا ہے، سڑكوں پر ٹريفك قوانين كى خلاف ورزى كے نتيجہ ميں جو حادثات ہوتے ہيں ان ميں كئى ايك فريق كو نقصان ہوتا ہے، اور يہ چيز خلاف ورزى كرنے والے كے ذمہ ميں كئى ايك احكام لاگو ہوتے ہيں مثلا ديت، اور روزے، اور نقصان كا معاوضہ وغيرہ.
اور ان اصول و ضوابط كى خلاف ورزى كرنے والے كے ليے جرمانہ كى ادائيگى شرعا جائز ہے، اسحاق بن راہويہ، اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے ساتھى ابو يوسف، اور مالكيہ ميں سے ابن فرحون، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ابن قيم رحمہم اللہ كا قول يہى ہے.
بلكہ ابن قيم رحمہ اللہ نے تو اپنى كتاب " الطرق الحكميۃ " ميں مالى تعزير كے جواز پر بہت سارے دلائل بيان كيے ہيں، اور اس ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى كلام نقل كى ہے، اور اسے منسوخ قرار دينے والے كا رد بھى كيا ہے.
اور سنن ابو داود كى تھذيب كے حاشيہ پر لكھا ہے:
" اور شرعى مالى سزاؤں كے ثبوت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كئى ايك احاديث ثابت ہيں، نہ تو كسى دليل اور نہ ہى ان كے بعد خلفاء راشدين كے عمل سے اس كا منسوخ ہونا ثابت ہے " انتہى.
ديكھيں: حاشيۃ على تھذيب سنن ابوداود ( 4 / 319 ).
اور يہ جرمانہ معقول قسم كا ہونا چاہيے كہ اس سے مقصود مصلحت پورى ہو سكے، اور وہ مصلحت يہ ہے كہ لوگوں اس خلاف ورزى سے روكا جا سكے، اور خلاف ورزى كے اعتبار سے جرمانہ زيادہ ہونے ميں بھى كوئى حرج نہيں تا كہ اس كا جان اور دوسروں پر كوئى اثر بھى ہو.
اس مسئلہ كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21900 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ دوران ڈرائيونگ موبائل فون كا استعمال كرنے سے حادثات كا باعث بنتا ہے، جس كى نتيجہ ميں مال تلف ہونے كے علاوہ جانيں بھى تلف ہوتى ہيں.
پورى دنيا ميں اس وقت دانشور حضرات يہ آواز اٹھا رہے ہيں كہ دوران ڈرائيونگ موبائل فون استعمال كرنے سے منع كرنے كے ليے بہت شديد قسم كى سزا كا ہونا بہت ضرورى ہے، اور برطانيا ميں كئى بار سروے سے يہ بات سامنے آ چكى ہے كہ شراب نوشى كى حالت ميں گاڑى ڈرائيو كرنے اور گاڑى پر كنٹرول كرنے سے بھى زيادہ موبائل فون استعمال كرنے كا ڈرائيونگ پر منفى اثر پڑتا ہے!
ان سروے سے يہ بات ثابت ہوئى ہے كہ جو ڈرائيور دوران ڈرائيونگ موبائل فون كا استعمال كرتا ہے اس كا گاڑى پر كنٹرول نشہ كى حالت ميں گاڑى چلانے والے ڈرائيور سے بھى تيس فيصد كم ہوتا ہے!!
ليكن اگر اس كا موازنہ عام شخص كے ساتھ كيا جائے تو پھر اس كا كم از كم تناسب پچاس فيصد ہوتا ہے !
بلكہ بعض ماہرين كا كہنا ہے كہ:
دوران ڈرائيونگ موبائل فون كا استعمال چاہے وہ ہيڈ فون كے استعمال كے ذريعہ ہى ہو اس سے حادثات كا چار سو فيصد احتمال بڑھ جاتا ہے!
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ بروز بدھ كا اخبار " الوطن " اور القطريۃ الموافق ( 20 / 7 / 2005 ميلادى ) كا مطالعہ كريں.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
دوران ڈرائيونگ موبائل فون كا استعمال كرنا حادثات كا رئيسى اور بنيادى سبب ہے، اس كى خلاف ورزى كے نتجيہ ميں سزا ہونى چاہيے چاہے وہ مالى شكل ميں ہو، يا پھر اتنى قيد ہو جو اس سے برى كر سكے، اس بنا آپ كے ليے ٹريفك پوليس كے اہلكار كو اس سزا سے بچنے كے ليے رشوت دينى جائز نہيں، كيونكہ آپ نے خود كوتاہى كى اور حد سے تجاوز كرتے ہوئے قانون توڑا ہے.
ليكن اگر پوليس اہلكار ظالم ہو كہ اس نے آپ كے خلاف ايسا دعوى اورالزام عائد كيا جس كے آپ مرتكب ہى نہيں ہوئے تو پھر اس حالت ميں اگر آپ اس كے ظلم سے رشوت ديے بغير چھٹكارا حاصل نہيں كر سكتے تو رشوت دينے ميں كوئى حرج نہيں.
اس كا بيان آپ سوال نمبر ( 72268 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
واللہ اعلم .