"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سوال: ہماری مسجد کے امام نے خطبہ جمعہ میں کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے تشدد نہیں اپنانا چاہیے؛ کیونکہ سنتوں سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہوتا ہے، اور ہمیں اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے، انہوں نے اپنی اس بات پر دلیل دیتے ہوئے کہا: ایک دیہاتی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: "اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیں جس پر عمل کر کے جنت میں چلا جاؤں " تو آپ نے فرمایا:(اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ، فرض نمازیں ادا کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو) تو اس شخص نے کہا: "اللہ کی قسم ! میں کبھی بھی اس سے زیادہ عمل نہیں کرونگا، اور نہ ہی اس میں کمی لاؤں گا" جب وہ شخص چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اہل جنت میں سے کسی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس آدمی کی طرف دیکھے) تو کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ یاد رہے کہ ہم سنت پر عمل پیرا ہیں، اور خطیب کی طرف سے سنت پر عمل پیرا کو "تشدد پسند" کا لقب دیا جاتا ہے، اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالی آپکو برکتوں سے نوازے۔
الحمد للہ.
اول:
آپ کے امام نے انتہائی گھٹیا اور غلط بات کی ہے، اسے یہ بات کرتے ہوئے اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے تھا، اور اپنی زبان کو ایسی باتوں سے لگام دے کہ جن کی وجہ سے گناہوں میں ڈوبنے کا خدشہ ہو۔
"سنت نبوی" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقوال و افعال پر مشتمل طرزِ زندگی ہے، تو سنت نبوی کس طرح مسلمانوں میں فرقہ واریت کا سبب ہو سکتی ہے؟! اگر سنت نبوی فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہے، تو پھر مسلمانوں کو متحد کرنے کیلئے کیا چیز باقی رہ جائے گی؟
اگر یہ امام درست بات کرنا چاہتا تو یہ کہتا: "سنت نبوی ہی لوگوں کو متحد اور یکجا جمع کر سکتی ہے"
امام ابو مظفر سمعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل حدیث کے متفق ہونے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے کتاب و سنت سے ہی دین اخذ کیا ہے، جس کی وجہ سے ان میں اتفاق و اتحاد پیدا ہوا، جبکہ اہل بدعت نے عقلی باتوں کے ذریعے دین حاصل کیا جس کی وجہ سے ان میں اختلاف و افتراق پیدا ہوا" انتہی
ماخوذ از: "الانتصار لأهل الحديث "صفحہ: (47)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"باہمی اتحاد و یگانگت کا ذریعہ دینی یکجہتی، اور پورے دین پر عمل ہے، اور [پورے دین پر عمل یہ ہے کہ] باطنی اور ظاہری ہر اعتبار سے ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی جائے ، اور اسی کے احکام کے مطابق کی جائے، جبکہ اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بندوں کو اللہ کی طرف سے ملنے والے احکامات کو ترک کر دیا جائے، اوروہ آپس میں بغاوت کریں!!
باہمی اتحاد و یگانگت کا نتیجہ اللہ کی رحمت، رضامندی، دنیاوی و اخروی نیک بختی، اور روشن چہروں کی شکل میں ملتا ہے۔
جبکہ اختلافات کا نتیجہ اللہ کے عذاب، پھٹکار، سیاہ چہروں اور انبیاء کی طرف سے اظہار لا تعلقی کی شکل میں ملتا ہے" انتہی
مجموع الفتاوى (1/17)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"احادیث سے ثابت شدہ امور پر عمل سے باہمی الفت پیدا ہوتی ہے، اور نیکی کے کاموں پر معرفت حاصل ہوتی ہے، جیسے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ : "علم کم ہو تو [بلاوجہ] سختی پیدا ہوتی ہے، اور جب احادیث موجود نہ ہوں تو خواہش پرستی [پر مبنی بدعات ] زیادہ ہو جاتی ہیں"" انتہی
درء التعارض (1/149)
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سنت پر عمل پیرا شخص کو "متشدد" کا نام دیا جائے، حالانکہ ایک مسلمان کو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اور اتباع کا حکم ہے؟! اس امام کا صحابہ کرام کے ان اعمال کے بارے میں کیا نظریہ ہے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے سر انجام دیے؟! اور اس امام کی طرف سے درج ذیل واقعہ پر کیا حکم لگایا جائے گا:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک آپ نے اپنے جوتے اتار کر اپنی بائیں جانب رکھ دیے، جب لوگوں نے یہ عمل دیکھا تو [حالت نماز ہی میں] اپنے اپنے جوتے اتار دیے، چنانچہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل فرمائی تو استفسار فرمایا: (تم نے اپنے جوتے کس لیے اتارے؟) تو انہوں نے کہا: "ہم نے آپکو دیکھا کہ آپ نے جوتے اتار دیئے ہیں اس لیے ہم نے بھی اتار دیئے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے پاس تو جبریل نے آ کر بتلایا تھا کہ جوتوں میں گندگی لگی ہوئی ہے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو اپنے جوتوں کو دیکھ لے، چنانچہ اگر ان میں گندگی لگی ہوئی ہو تو اسے صاف کر کے ان میں نماز ادا کرسکتا ہے)"
ابو داود: (650) اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ کرام نے اپنے جوتے صرف اس لیے اتار دیئے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتے اتارتے ہوئے دیکھا، اور اگر کوئی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت ہو، یا آپ کے طرزِ زندگی میں شامل ہو تو پھر کیا معاملہ ہوگا!؟
دوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے شیدائی اور آپ کی اتباع کرنے والوں کو "متشدد" یا "انتہا پسند" کہنا بھی ایذا رسانی اور بہتان بازی میں شامل ہے، بلکہ اللہ تعالی نے ایسا کرنے والوں کو سخت ڈانٹ بھی پلائی ہے، ساتھ میں ان کے اس عمل کو مشرکین کی کارستانیوں سے بھی تشبیہ دی ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَاناً وَإِثْماً مُبِيناً )
ترجمہ:جن لوگوں نے مؤمن مرد و خواتین کو بغیر کسی جرم کے بدلے ہی ایذا رسانی کی تو یقیناً انہوں نے بہتان اور واضح گناہ اپنے ذمہ لے لیا[الأحزاب:58]
اسی طرح یہ بھی فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [29]وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ [30] وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ [31] وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلاءِ لَضَالُّونَ )
ترجمہ: بیشک مجرم لوگ ایمان والوں پر پھبتیاں کستے تھے [29] اور جب مسلمانوں کے پاس سے گزرتے تو آنکھوں سے اشارے کرتے [30] اور جب اپنے گھروں کو لوٹتے تو خوش گپیاں کرتے ہوئے جاتے [31] اور پھر جب مسلمانوں کو دیکھتے تو کہتے: یہی لوگ گمراہ ترین ہیں۔ [مطففین:29 – 32]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"( وَإِذَا رَأَوْهُمْ) یعنی جس وقت مجرم مؤمنوں کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: (إِنَّ هَؤُلاءِ لَضَالُّونَ) یعنی یہ لوگ درست راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں، سخت گیر اور شدت پسند ہیں، اسی طرح کے اور بھی القابات دیتے ہیں، انہیں لوگوں کے روحانی فرزند آج بھی ہمارے زمانے میں موجود ہیں، اور رہیں گے، چنانچہ کچھ لوگ اچھے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ : "رجعت پسند اور قدامت پسند ہیں" دین دار شخص کے بارے میں کہتے ہیں کہ: "یہ متشدد اور سخت گیر ہے" ان سب القابات سے بڑھ کر کچھ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے رسولوں کو "جادو گر اور پاگل" تک کہہ دیا تھا، اسی بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ) ترجمہ: اسی طرح آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں سب سے انہوں نے کہا: [یہ تو] جادوگر یا پاگل ہے![الذاريات:52]
چونکہ رسولوں کے ورثاء بھی اہل علم اور دیندار ہی ہیں، اس لیے انہیں بھی بدتمیزی، اور القابات وغیرہ پر مشتمل وہی کچھ کہا جائے گا جو کچھ رسولوں کو کہا گیا۔
اسی کی عملی مثال بدعتی اور معطلہ [اللہ کی صفات کا انکار کرنے والے ]لوگوں نے سلف صالحین کے بارے میں قائم کی اور انہیں " حَشوَّية ، مُجسِّمة ، مُشبِّهة "اور اسی طرح کے دیگر القابات دئیے مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو سیدھے راستے سے نفرت دلائی جائے"
" لقاءات الباب المفتوح " ( ملاقات نمبر: 30 )
سوم:
دین کے دائرے میں مذموم تشدد یہ ہے کہ کسی مستحب کام کو واجب قرار دے دیا جائے، یا مکروہ کام کو حرام، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں غلو سے بھی خبردار کیا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجہ سختی سے بھی منع فرمایا ہے، یہاں پر غلو اور بلا وجہ سختی سے مراد سنت پر عمل ہر گز نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد شرعی احکامات کو تبدیل کرنا ہے، تاہم کسی واجب کام پر عمل کرنا اور حرام کام سے بچنا کسی صورت میں بھی تشدد یا غلو نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک حدیث: (اپنے آپ پر سختی مت کرو، ورنہ تم پر سختی کی جائے گی؛ کیونکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی تو اللہ تعالی نے بھی ان پر سختی فرمائی، گرجا گھروں اور معبد خانوں میں انہی کے آثار ہیں) کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"اس حدیث میں شرعی دائرے سے باہر نکل کر اپنے آپ پر سختی کرنے کی ممانعت ہے، چنانچہ یہ تشدد بسا اوقات کسی غیر مستحب یا غیر واجب عمل کو مستحب یا واجب قرار دینے کی شکل میں ہوتا ہے، اور بسا اوقات کسی ایسے کام کو حرام یا مکروہ سمجھ لینے سے ہوتا ہے جو حقیقت میں حرام یا مکروہ نہیں ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ عیسائیوں میں سے جن لوگوں نے اپنے آپ پر تشدد کیا تو اللہ تعالی نے ان پر سختی ڈال دی، یہاں تک کہ معاملہ انکی موجودہ خود ساختہ رہبانیت تک پہنچ گیا۔
اس حدیث میں عیسائیوں کی خود ساختہ رہبانیت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کراہت کا اظہار فرمایا ہے، اگرچہ بہت سے ہمارے عبادت گزار لوگ تاویلیں کرتے ہوئے اس میں مبتلا ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں معذور سمجھا گیا ہے، اور کچھ لوگ بغیر کسی تاویل کے اس میں مبتلا ہیں اور انہیں معذور بھی نہیں سمجھا گیا۔
یہاں اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے آپ پر خود سے تشدد کسی اور تشدد کا بھی سبب بنتا ہے، جو کہ اللہ کی طرف سے شرعی طور پر ڈالا جاتا ہے یا قدری طور پر، شرعی کی مثال جیسے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں کسی کام کے واجب یا حرام ہونے کے بارے میں خدشات رکھتے تھے مثلاً: صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز تراویح کیلئے اکٹھے ہوئے تو آپ کو تراویح کے فرض ہونے کا خدشہ لاحق ہوا، اسی طرح صحابہ کرام کی طرف سے ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات جنہیں ابھی حرام نہیں کیا گیا [تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشات لاحق ہوئے کہ کہیں صحابہ کرام کے سوال کرنے سے یہ چیزیں حرام نہ کر دی جائیں] اسی طرح کوئی شخص کسی نیک کام کے کرنے کی نذر مان لے تو اس پر نذر پوری کرنا واجب ہو جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں نذر ماننے سے روکا گیا ہے، اسی طرح کسی سبب کی بنا پر واجب ہونے والے کفارے بھی اسی میں شامل ہیں۔
اور قدرتی کی مثال یہ ہے کہ: ہمارے مشاہدے اور سننے میں یہ بات کئی بار آئی ہے کہ جو شخص حلال و حرام کے بارے میں تشدد کی راہ اختیار کرے تو اسے ایسے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اسے مزید تشدد میں مبتلا کرنے کا باعث بنتے ہیں؛ مثلاً: وضو اور طہارت کے بارے میں وسوسے رکھنے والے لوگ مقررہ عدد سے زیادہ بار اعضاء دھوئیں تو انہیں بہت سی ایسی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے انہیں سخت نقصان اور مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے" انتہی
" اقتضاء الصراط المستقیم " ( 103 ، 104 )
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ارشادِ نبوی: (اپنے آپ کو دین میں غلو کرنے سے بچاؤ، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی برباد کیا) نسائی: (3059) ابن ماجہ: (3029) اسے البانی نے "صحیح نسائی" میں صحیح بھی قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو غلو سے خبردار کیا ہے، نیز اس بات کی دلیل بھی پیش کی کہ غلو تباہی کا باعث ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلو شریعت سے متصادم ہوتا ہے؛ اور سابقہ امتوں کی تباہی کا باعث بھی ہے؛ چنانچہ یہاں غلو کی حرمت دو اعتبار سے معلوم ہوتی ہے:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلو سے [تحذیر]خبردار کیا ہے، اور اس میں کسی کام کی ممانعت سے بھی زیادہ معنی پایا جاتا ہے۔
2- یہ اقوام کی تباہی کا باعث ہے، جیسے کہ غلو نے سابقہ اقوام کو تباہ و برباد کیا، اور کوئی بھی چیز تباہی کا باعث ہو تو وہ حرام ہوتی ہے۔
لوگ عبادات کے معاملے میں دو انتہاؤں کے ساتھ ساتھ اعتدال کی راہ پر بھی ہیں، چنانچہ کچھ انتہائی غلو کرنے والے، کچھ انتہائی سستی کرنے والے، اور کچھ معتدل ہیں۔
تاہم دین الہی غلو اور سستی کا درمیانی حصہ ہے، اس لیے اگر کوئی انسان غلو یا سستی کا شکار نہیں ہوتا تو یہی وہ صورت ہے جو ہر شخص پر واجب ہے، لہذا دین میں ایک انتہا یعنی تشدد یا مبالغہ کرنا یا پھر دوسری انتہا یعنی سستی اور بالکل لا پرواہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ انہی دونوں راہوں کے درمیان اعتدال پسند راہ ہے" انتہی
" مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین " ( 9 / 367 ، 368 )
چہارم:
آپ کے امام نے جس حدیث کو دلیل بنایا ہے اسے بخاری : (1333) اور مسلم: (14) نے روایت کیا ہے، اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اس نے اس حدیث کا مفہوم غلط سمجھا ہے، چنانچہ اگر اس حدیث کے دیگر الفاظ تلاش کرتا، اسی طرح علمائے کرام کی اس حدیث کے بارے میں گفتگو پڑھتا تو ایسی بات کبھی نہ کرتا، چنانچہ بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلامی شریعت سکھائی) حدیث کے ان الفاظ میں باقی فرائض اور مستحب اعمال بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث کے الفاظ: "اس شخص نے اسلام کے بارے میں پوچھنا شروع کیا" یعنی اسلامی شریعت کے بارے میں پوچھنا شروع کیا، یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ اس شخص نے اسلام کی حقیقت سے متعلق سوال کیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے شہادتین کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ یہ شہادتین کے متعلق جانتا ہے، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شخص عملی احکامات سے متعلق استفسار کر رہا ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادتین کا ذکر تو کیا ہوگا لیکن راوی نے اسے بیان نہیں کیا کیونکہ یہ ایک مشہور چیز ہے۔
جبکہ حج کا ذکر اس لئے نہیں فرمایا کہ ابھی حج کی فرضیت نازل نہیں ہوئی تھی، یا پھر راوی نے اختصار کرتے ہوئے اسے بیان نہیں کیا، اسی دوسرے احتمال کو بخاری کی دوسری روایت تقویت بھی دیتی ہے کہ کتاب الصیام میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اسماعیل بن جعفر عن ابی سہیل کے واسطے سے یہ روایت نقل کی ہے کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلامی شرعی احکامات سے بتلائے" چنانچہ ان الفاظ کی وجہ سے دیگر فرائض بھی شامل ہوگئے، بلکہ مستحبات بھی اسی میں شامل ہیں۔۔۔
حدیث کے الفاظ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا ذکر فرمایا" جبکہ اسماعیل بن جعفر کی روایت کے الفاظ ہیں کہ : "اس شخص نے کہا: "مجھے آپ یہ بتلائیں کہ اللہ تعالی نے مجھ پر کتنی زکاۃ فرض کی ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلامی احکام بتلائے" چنانچہ ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اس واقعے میں کئی ایسی چیزیں ہیں جنہیں اختصار کرتے ہوئے اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے، اور انہی اشیاء میں زکاۃ کا نصاب بھی ہے؛ کیونکہ حدیث کے دونوں الفاظ میں زکاۃ کے نصاب کی تفصیل موجود نہیں ہے، اسی طرح نمازوں کے نام بھی ذکر نہیں ہوئے، عدم ذکر کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں ان کے ہاں بہت مشہور تھیں، یا پھر یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ فرائض ادا کرنے والا نجات پا جائے گا، چاہے نوافل ادا نہ بھی کرے۔۔۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ: یہ شخص کامیاب ہوگا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتلائے گئے امور میں کمی نہیں کریگا، تو یہ بات واضح اور سمجھ میں بھی آتی ہے، لیکن اس نے یہ بھی کہا ہے کہ میں اس سے زیادہ عمل نہیں کرونگا، یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟
اس بارے میں نووی رحمہ اللہ نے جواب دیا ہے کہ : اس شخص کے لیے یقینی کامیابی اس لیے ذکر کی گئی کہ اس نے اپنے ذمہ واجبات ادا کرنے کا اقرار کیا ہے، یہاں یہ بات نہیں ہے کہ اگر اس سے زائد اعمال کیے تو کامیاب نہیں ہوگا؛ کیونکہ اگر واجب کی ادائیگی سے فلاح ملتی ہے تو واجبات کے ساتھ مستحب اعمال کی موجودگی میں کامیابی تو مزید یقینی ہو جاتی ہے" انتہی
فتح الباری " ( 1 / 108 )
ہم آپ کے امام سے امید کرینگے کہ وہ حدیث کے الفاظ: " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلامی شریعت سکھائی " پر غور کریں، اسی طرح ہم یہ امید کرینگے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نقل کردہ گفتگو اور امام نووی رحمہ اللہ کی بات پر بھی غور و فکر کریں کہ جو شخص واجب امور سر انجام دینے کے بعد مستحب اعمال بھی کرے تو ایسے شخص کیلئے کامیابی زیادہ یقینی ہے۔
پنجم:
ہم آپکو یہ نصیحت کرینگے کہ احکاماتِ الہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر کار بند رہیں، اسی طرح سنتوں اور مستحب امور بھی سر انجام دیں، لیکن اس کیلئے غلو اور تشدد کی راہ اختیار نہ کریں، لوگوں کو یہ باتیں حکمت اور خوش اسلوبی سے سکھائیں، چنانچہ ایسے امور جن کے بارے میں وسعت ہے، ان کے متعلق تشدد کرتے ہوئے لوگوں کو متنفر کرنا بالکل جائز نہیں ہے، اسی طرح مستحب امور کو واجب قرار دینا، یا لوگوں کو کسی بھی کام سے روکتے ہوئے سختی سے کام لینا بھی درست نہیں ہے، بلکہ امام مسجد، مفتی، یا کسی بھی با اثر شخصیت کو نصیحت کرتے ہوئے ان باتوں کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے، آپ ایک عالم فاضل شخصیت سے ایک جامع نصیحت گوش گزار کریں:
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ڈٹ جانا ضروری ہے، آپ اسی پر کار بند رہیں، اور کسی بھی ملامت گر کی پرواہ نہ کریں، اگر طرزِ نبوی کا تعلق واجبات سے ہو اور آپ کے والدین سنت پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے برا بھلا کہتے ہیں اور آپ سے طرزِ نبوی پر عمل میں تساہل پسندی کے متمنی ہیں، تو آپ انکی یہ بات مت مانیں، بشرطیکہ عمل کا تعلق مستحبات سے نہ ہو اور آپ بھی عمل کرتے ہوئے تشدد کی راہ اختیار نہ کریں ، اور اگر آپ تشدد کی راہ پر ہیں تو یہ درست نہیں ہے، اس لیے طرزِ نبوی اپناتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی اختیار کریں، اور اس پر عمل پیرا رہیں، غلو اور تشدد کے قریب مت جائیں، آپ کو اسی طرح عمل کرنا چاہیے، اور ان شاء اللہ آپکو ہر حالت میں ثواب ضرور ملے گا، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر قائم رہیں، اور جو بھی آپ کو اس بارے میں برا بھلا کہے انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں، خصوصاً والدین کو اچھے انداز سے سمجھائیں، والدین کی اچھی باتیں مانیں، انہیں سنتوں کے بارے میں رغبت دلائیں، اور انہیں سنتوں پر عمل سے ملنے والا ثواب بھی بیان کریں، امید واثق ہے کہ ان کی طرف سے اٹھایا جانے والا اعتراض ختم ہو جائے اور سنت پر عمل عجیب محسوس نہ ہو، بلکہ یہاں یہ بھی امید ہے کہ آپ کی کوشش کی وجہ سے ہو سکتا ہے وہ بھی اس سنت پر عمل کرنے لگیں اور پکے متبع سنت بن جائیں، اور اللہ کی طرف دعوت دینے میں آپ ہی پہلا قطرہ ثابت ہوں۔
یقیناً اللہ کی طرف دعوت دینے والوں میں سب سے پہلے اپنے قریبی عزیز و اقارب کو دعوت دینی چاہیے، اور والدین انسان کے سب سے قریبی ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ : اگر سنتوں پر عمل افراط و غلو کا شکار نہیں ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے، آپ اپنی اس عادت پر قائم رہیں، اور اس عمل کی دعوت اپنے والدین کیساتھ ساتھ دیگر افراد کو بھی دیں۔ واللہ اعلم" انتہی
" المنتقى من فتاوى شیخ الفوزان " ( 2 / 301 ، 302 )
آخری بات:
جیسے کہ یہ بات مذموم تشدد اور سختی میں شامل ہے کہ کسی مستحب کام کو واجب یا مکروہ کام کو حرام کہنا ، یا پھر اپنے آپ پر کسی ایسی چیز کو لازم قرار دے دینا جسے اللہ نے ہم پر لازم قرار نہیں دیا؛ تو بالکل ایسا ہی حکم شرعی اصولوں سے جہالت کی بنا پر بھی لگے گا کہ ہم دین کے عظیم اصول کو پس پشت ڈال دیں، اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرنا واجب ہے، اسلام کی بنیاد پر اتحاد ضروری ہے، اسی طرح کسی بھی مسلمان کی عزت و آبرو کو تحفظ دینا بھی لازمی امر ہے چہ جائیکہ کسی کو اذیت دی جائے اور مارا جائے، لہذا یہ بات بھی جہالت کی علامت ہے کہ باہمی الفت و محبت کو صرف اس لیے تباہ کر دیں کہ اس نے مستحب چیز پر عمل کیا اور اس نے مستحب پر عمل کیوں نہیں کیا، یا مستحب پر مسلسل عمل کیوں نہیں کرتا، دوسری طرف کسی مسلمان کی شخصیت پر حملے کرنا یا حق تلفی کرنا صرف اس وجہ سے کہ اس نے دوسروں کے عمل کو نشانہ بنایا ہے۔
اس طرح سے شیطان ملعون مسلمانوں سے اپنے اہداف مکمل کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے؛ اور اگر یہی معاملہ کسی ایسے غیر مسلم ملک میں ہوں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور وہ اپنے معاش کیلئے وہاں گئے ہیں ہوئے ہیں جہاں غیر مسلم بھی ہمارے دینی شعائر کو دیکھتے ہیں، [وہاں پر ایسے امور سے مکمل اجتناب ہی کرنا چاہیے]
امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم: (2812) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: (بیشک شیطان مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی جزیرۃ العرب میں اس کی عبادت کرینگے، لیکن [وہ] ان میں باہمی چپقلش سے [پر امید ہے] )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طریقہ نماز میں "بسم اللہ" پڑھنے کا مسئلہ بھی ہے، اس کے بارے میں کچھ لوگ اثبات کے قائل ہیں، اور کچھ نفی کے، یعنی یہ [ہر سورت کی ابتدا میں]قرآن کا حصہ ہے یا نہیں؟ اسی طرح نماز کی قراءت میں "بسم اللہ" شامل ہے یا نہیں؟ یہاں پر فریقین کی جانب سے کتابیں بھی لکھی گئی ہیں جن میں چند باتیں جہالت اور ظلمت کی پیداوار ہیں ، حالانکہ دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔
چنانچہ اس قسم کے مسائل سے متعلق تعصب کا اظہار کرنا فرقہ واریت، اور ممنوع اختلاف میں شامل ہے؛ کیونکہ یہاں پر اختلافی مسائل کو امت میں پھیلانے کی کوشش ہی اصل محرک ہے، وگرنہ اس طرح کے مسائل تو انتہائی ہلکے پھلکے اختلافی مسائل ہیں جنہیں اگر شیطان ہوا دینے کی کاوش نہ کرے تو اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہوتا۔۔۔"
اس کے بعد مزید لکھتے ہیں:
"انسان تالیف قلبی کیلئے اس قسم کے مستحب امور ترک کر دے تو یہ مستحب عمل ہوگا کیونکہ لوگوں میں الفت پیدا کرنا اس جیسے اعمال کرنے سے بہت بڑا عمل ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوں میں الفت پیدا کرنے کیلئے بیت اللہ کی دوبارہ تعمیرنہیں فرمائی ، اور ایسے ہی ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سفر میں نماز مکمل ادا کرنے پر اعتراض کیا، لیکن ان کے پیچھے مکمل نماز ادا کی اور کہا: اختلاف کرنے سے شر پیدا ہوتا ہے"
مجموع الفتاوى (22/405-4079)
واللہ اعلم.