"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
صرف لفظ جلالہ كا ذكر كرنا يعنى " اللہ اللہ اللہ " كہنا بدعت ہے اور ان اذكار ميں شامل ہوتا ہے جو جاہل قسم كے صوفيوں اور ان كى موافقت كرنے والوں نے ايجاد كيا ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام سے اس كا ثبوت نہيں ملتا.
اس كا تفصيلى بيان ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 9389 ) اور ( 26867 ) كے جوابات گزر چكا ہے آپ اسكا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
بعض لوگ جو اس ذكر كى مشروعيت پر استدلال كرتے اور دلائل ديتے ہيں وہ صرف گرے پڑے شبہات ہيں جس سے اس قسم كا ذكر كى مشروعيت كبھى ثابت نہيں ہوتى ان دلائل درج ذيل دلائل شامل ہيں:
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قيامت اس وقت قائم ہو گى جب زمين ميں كوئى اللہ اللہ كرنے والا نہ بچے گا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 148 ).
اس حديث ميں صرف لفظ جلالہ " اللہ اللہ " كا ذكر كرنے كى كوئى دليل نہيں ملتى اس كى كئى وجوہات ہيں:
1 ـ بعض روايات ميں آيا ہے كہ:
" كسى لا الہ الا اللہ كہنے والے پر قيامت قائم نہيں ہو گى "
يہ روايت مسند احمد ( 3 / 268 ) اور صحيح ابن حبان ( 15 / 262 ) اور مستدرك حاكم ( 4 / 540 ) ميں ہے، بلكہ يہ مسلم كى بھى ايك روايت ہے جيسا كہ قاضى عياض نے ابن ابى جعفر كى روايات سے نقل كيا ہے.
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 2 / 178 ).
يہ روايت پہلى روايت كى شرح كرتى ہے تو معنى يہ ہو گا: مؤحدين جو لا الہ الا اللہ كہنے والے ہونگے ان پر قيامت قائم نہيں ہو گى.
2 ـ اس حديث سے يہ مراد لينا جائز نہيں كہ صرف لفظ جلالہ " اللہ اللہ " كرنے والے قيامت قائم نہيں ہو گى، اور اس كے علاوہ جو دوسرے ذكر كرتے ہونگے ان پر قيامت قائم ہو گى، كيونكہ اس سے انتہائى يہى گمان كيا جا سكتا ہے كہ اسم مفرد كا ذكر كرنا مستحب ہے نہ كہ فرض، تو پھر كسى ايسے امر پر قيامت كى ہولناكيوں سے نجات كا مدار كيسے ہو سكتا ہے جو صرف مستحب ہو؟!
3 ـ پھر عربى لغت بھى اس كى معاونت نہيں كرتى جو اس سے صرف اسم مفرد كا ذكر كرنے پر استدلال كرنا چاہتا ہو، كيونكہ صرف اسم مفرد كوئى تام معنى نہيں ديتا، اور اللہ كا ذكر كرنے كا معنى يہ ہے كہ اس ميں ضرورى اللہ كى تعريف اور حمد كى صفات پائى جانى چاہيے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لغت عرب كے اہل علم اور باقى سارى لغات كے عالم بھى اس پر متفق ہيں كہ صرف اكيلے نام پر سكوت بہتر اور صحيح نہيں، اور نہ ہى يہ مكمل اور تام جملہ ہے، اور نہ ہى مفيد كلام بنتى ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 564 ).
4 ـ صحابہ كرام رضى اللہ عنہم اور تابعين عظام اس حديث سے اسم مفرد كا ذكر كرنا مستحب نہيں سمجھے، اور نہ ہى ان ميں سے كسى ايك سے ثابت ہے كہ انہوں نے اس حديث سے اس كا استنباط كيا ہو، اس استدلال كے باطل ہونے كے ليے يہى ايك دليل كافى ہے.
5 ـ پھر اس حديث كى شرح ميں علماء كرام كے اقوال تسلسل كے ساتھ ثابت ہيں ليكن كسى ايك سے بھى ثابت نہيں كہ انہوں نے اس سے اسم مفرد پر استدلال كيا ہو.
امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:
" وہ اللہ اللہ كہتا ہے " لفظ جلالہ كى ہاء پر پيش پڑھے، ليكن بعض لوگ غلط پڑھتے ہوئےاس پر پيش نہيں پڑھتے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 2 / 178 ).
اور تحفۃ الاحوذى ميں طيبى رحمہ اللہ كا قول منقول ہے:
" حتى لا يقال " كا معنى يہ ہے كہ اللہ كا نام نہ ليا جائے اور نہ ہى اللہ كى عبادت كى جائے " انتہى
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 6 / 375 ).
اور مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس سے يہ مراد نہيں كہ يہ كلمہ نہيں بولا جائيگا، بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ حقيقى طور پر اللہ كا ذكر نہيں كيا جائيگا، گويا كہ قيامت جب تك زمين ميں كوئى كامل انسان ہے قيامت قائم نہيں ہو گى، يا پھر تكرار اس سے كنايہ ہے كہ كسى برائى پر دل سے بھى انكار نہيں كيا جائيگا؛ كيونكہ جو كوئى كسى برائى كو ديكھ كر اس كا انكار كرتا اور اسے روكتا ہے تو اس كى قباحت كى بنا پر " اللہ اللہ " كہتا ہے.
تو معنى يہ ہوا كہ: اس وقت تك قيامت قائم نہيں ہو گى جب تك برائى كو روكنے والا موجود ہو گا " انتہى
ديكھيں: فيض القدير ( 6 / 417 ).
اور شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كا معنى يہ نہيں كہ مسلمان بيٹھ كر صرف اللہ كے اسم مفرد " اللہ اللہ " كا ذكر كرنے لگے، اور سو بار " اللہ اللہ اللہ " كہے، جيسا كہ اكثر طرق سے منسلك لوگ كرتے ہيں، اور اس كى شرح و تفسير مسند احمد كى روايت ميں پائى جاتى ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ:
" جب تك زمين ميں كوئى لا الہ الا اللہ كہنے والا ہو گا قيامت قائم نہيں ہو گى "
لہذا پہلى روايت ميں لفظ مفرد توحيد سے كنايہ ہے، اور اس كا معنى يہ ہے كہ جب تك اللہ كى عبادت كرنے والا ايك بھى شخص زمين ميں ہو گا قيامت قائم نہيں ہو گى.
اور اس كى صراحت ابن سمعان كى حديث ميں موجود ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے، اس ميں بيان ہوا ہے كہ جب اللہ تعالى قيامت كرنا چاہے گا تو ايك پاكيزہ ہوا بھيجے گا جو ہر مومن كى روح كو قبض كر لےگى، تو زمين پر صرف شرير قسم كے لوگ ہى رہ جائينگے، اور ان لوگوں پر قيامت قائم ہو گى"
اور اس ميں زيادہ سے زيادہ يہى ہے كہ يہ ذكر مستحب ہے، تو كيا مستحب ترك كرنے والے پر ہى قيامت قائم ہو گى، يعنى جب سب مسلمان اپنے واجبات و فرائض كى ادائيگى كرتے رہيں اور ان كے عقائد صحيح ہوں، ليكن انہوں نے اس مستحب معاملہ ميں خلل پيدا كيا تو ان پر قيامت قائم ہو جائيگى ؟! " انتہى
سماعت فرمائيں: كيسٹ فتاوى جدۃ كيسٹ نمبر ( 6 ) ساٹھ منٹ.
واللہ اعلم .