ہمارى ايك پڑوسن كو دودھ پيتا لاوارث بچہ ملا ہے جس كى عمر چند گھنٹے ہے، وہ لاوارث بچوں كے ادارہ كے معاملات سے خوفزدہ ہے اور اس بچے كى تربيت كرنا چاہتى ہے، ليكن جب وہ بڑا ہو گا تو گھر ميں اس كے ساتھ بيٹھنا حرام ہوگا، اس ليے وہ كہتى ہے كہ اگر وہ اس كى تريبت كريگى تو وہ اس سےاپنى اولاد كى طرح محبت كريگى، اور اسے چھوڑنا مشكل ہوگا، اس عورت كى بيٹياں شادى شدہ ہيں اور ان كے دودھ پيتے بچے بھى ہيں، تو كيا وہ اپنى اولاد كا دودھ اسے پلا دے تا كہ وہ اس كى رضاعى نانى بن جائے، تو اس طرح وہ گھر ميں اس كے ساتھ بيٹھ بھى سكے گى، يا كہ يہ قابل مذمت حيلہ شمار ہوگا ؟
ميرى والدہ نے ہمارى پڑوسن كى بيٹى كو ميرے بڑے بھائى كے ساتھ كئى بار دودھ پلايا ہے، تو اس طرح وہ ميرے بھائى كى رضاعى بہن بن چكى ہے، تو كيا وہ اور اس كے حقيقى بھائى بھى ميرے رضاعى بہن بھائى بن گئے ہيں، يا كہ ميرے بھائى كے بہن بھائى ہيں جس كے ساتھ اس نے دودھ پيا ہے، يہ سوال اس ليے ہے كہ تا كہ معاملات ميں تحديد كى جاسكے كہ آيا ان كے ساتھ بہن بھائيوں والا تعلق ركھا جائے يا كہ اجنبيوں والا ؟
الحمد للہ.
اگر تو آپ كى پڑوسن كى كوئى بيٹى اس
بچے كو پانچ رضاعت ( يعنى پانچ بار ) دودھ پلا دے تو وہ اس كا رضاعى بيٹا بن
جائےگا، اور آپ كى پڑوسن اس كى رضاعى نانى بن جائيگى، اور اس كى سارى بيٹياں ( يعنى
پڑوسن كى بيٹياں ) اس كى رضاعى خالائيں ہونگى، تو اس طرح وہ اس كے بچپن اور بڑى عمر
ميں بھى بغير كسى حرج كے تربيت كر سكتى ہے، كيونكہ وہ اس كا محرم بن جائيگا.
اور يہ حيلہ شمار نہيں ہوگا، بلكہ
حرج ختم كرنے كے ليے يہ شرعى حل ہے، اور اس طرح وہ عورت اس بچے كى تربيت اور ديكھ
بھال كر سكتى ہے، اور اميد ہے كہ اللہ تعالى اسےاس كا اجروثواب بھى عطا فرمائيگا.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو
حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى كو ابو حذيفہ كے غلام سالم كے متعلق فرمايا تھا:
" اسے تم دودھ پلاؤ تم پر يہ حرام ہو
جائيگا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1453 ).
واللہ اعلم .