"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ايك فرانسيسى شخص مسلمان تو ہے ليكن وہ نہ تو نماز ادا كرتا ہے اور نہ ہى روزہ ركھتا ہے، اور اپنى عيسائى گرل فرينڈ كے ساتھ رہائش پذير ہے، اب توبہ كرنا اور روزے ركھنا چاہتے ہے، ليكن وہ اپنے ساتھ اس عورت كى موجودگى كو عذر بناتا ہے، چنانچہ كيا اس كے ليے اس عورت كے ساتھ شادى كرنى جائز ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ كل سے رمضان المبارك كا مہينہ شروع ہو رہا ہے اور يہ پہلا روزہ ہو گا، اگر اس كے ليے ايسا كرنا جائز ہے تو اس سلسلہ ميں شرعيت كے مطابق كيا كاروائى كرنا ہو گى ؟
الحمد للہ.
اول:
اس شخص اور اس كے علاقى دوسروں كو بھى يہ بات معلوم ہونى چاہيے كہ نماز ترك كرنا كفر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج كر ديتا ہے، اور پھر دين اسلام اس پر راضى نہيں كہ كوئى بھى مسلمان شخص نماز روزہ ترك كرے، اور اپنى گرل فرينڈ كے ساتھ رہائش پذير ہو.
چنانچہ آپ پر واجب اور ضرورى ہے كہ اس شخص كو نصيحت كرتے ہوئے اس كے سامنے اسلام كى حقيقت واضح كريں كہ شرعى احكام كے سامنے سرتسليم خم كرنے كا نام ہى اسلام ہے، اور پھر مسلمان شخص كو دوسرے لوگوں كے ليے نمونہ اور ماڈل بننا چاہيے، اور خاص اس كفار ممالك ميں تو اور بھى زيادہ، يہ شخص صرف اپنى نمائندگى نہيں كر رہا بلكہ وہ تو اس دين اسلام كا نمائندہ ہے جسے اس نے قبول كيا، اور اس پر چلنے كا التزام كرتا ہے، اس ليے اسے ان معاصى كو لازما ترك كرنا ہو گا، اور شرعى احكام كى پابندى كرنا ہو گى، خاص كر نماز جو كہ دين اسلام اور كفر كے مابين حد فاصل ہے.
دوم:
ہميں اس سے بہت خوشى محسوس ہوئى ہے كہ وہ شخص توبہ كرنا چاہتا ہے، ليكن اس كى توبہ كرنے ميں كيا چيز حائل ہے ؟
حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى تو اپنے مومن بندے كى توبہ سے بہت خوش ہوتے ہيں، اور جب بندہ اللہ تعالى كى طرف رجوع كرتا ہوا توبہ كرتا ہے تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول فرماتا ہے، اس ليے اسے جلد از جلد توبہ كر لينى چاہيے اور اسے ليت و لعل سے كام نہيں لينا چاہيے، يا پھر وہ اس سلسلے ميں توبہ كو معلق نہ ركھے مبادا اسے موت آ لے اور اس نے توبہ بھى نہ كى ہو، تو اس طرح وہ گناہوں اور معاصى كى حالت ميں ہى اپنے رب سے جا ملے، اور ہو سكتا ہے اگر وہ اسى حالت پر رہے تو اسے موت كفر كى حالت ميں آئے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.
آپ اسے يہ بتائيں اور اس كے ليے اس كى وضاحت كريں كہ اللہ سبحانہ وتعالى توبہ كرنے والى كى برائياں بھى نيكيوں ميں بدل ڈالتے ہيں:
اللہ سبحانہ وتعالى كا ارشاد ہے:
ليكن جو شخص توبہ كر لے اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، يہى لوگ ہيں اللہ تعالى ان كى برائيوں كو نيكيوں ميں بدل ڈالتا ہے، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنا والا ہے الفرقان ( 70 ).
اس ليے اسے ہر وہ چيز ترك كرنے ميں جلدى كرنى چاہيے جو اللہ تعالى كى ناراضگى كا باعث بنے، چاہے وہ نماز ترك كرنا ہو، يا پھر اپنى گرل فرينڈ كے ساتھ رہنا.
مزيد تفصيل كے آپ درج ذيل سوال كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ يہ بہت اہم ہيں: ( 624 )
سوم:
اگر يہ شخص اللہ تعالى كى طرف رجوع كرتا ہوا توبہ كر لے تو اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ وہ اس گرل فرينڈ سے شادى نہيں كر سكتا، اس ليے نہيں كہ وہ عيسائى لڑكى ہے، بلكہ اس ليے كہ وہ زانيہ ہے ـ جيسا كہ اس كى كلام اور وصف كے مطابق ـ ، اور پھر اہل كتاب ـ يہودى يا نصرانى ـ لڑكى سے شادى كى شروط ميں يہ شامل ہے كہ وہ لڑكى عفت و عصمت كى مالك ہو، يعنى پاكدامن ہو اور زانيہ نہ ہو اور نہ ہى اس كا كوئى بوائے فرينڈ ہو.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
آج تمہارے ليے پاكيزہ اشياء حلال كر دى گئى ہيں، اور تم لوگوں سے پہلے جنہيں كتاب دى گئى ہے ان كا كھانا بھى حلال ہے، اور تمہارا كھانا ان كے ليے حلال ہے، اور مومن عورتوں ميں سے پاكدامن اور جنہيں كتاب دى گئى ہے ان ميں سے پاكدامن اور عصفت و عصمت كى مالك عورتيں حلال ہيں جب كہ تم انہيں ان كے مہر ادا كر دو، اس طرح كہ تم ان سے باقاعدہ نكاح كرو، يہ نہيں كہ اعلانيہ يا پوشيدہ بدكارى كرو اور ان سے دوستياں لگاؤ المآئدۃ ( 5 ).
چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالى نے يہاں اہل كتاب كى عورت سے نكاح ميں شرط يہ ركھى ہے كہ وہ پاكدامن اور عفت و عصمت كى مالك ہو، اور كسى بھى مسلمان شخص كے ليے ايسى كتابى عورت سے شادى كرنى جائز نہيں، بلكہ اگر كوئى عورت مسلمان ہو اور زنا بھى كرنے والى ہو تو كسى پاكدامن مسلمان كے ليے ايسى عورت سے شادى كرنى جائز نہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
زانى مرد زانيہ يا مشرك عورت كے علاوہ كسى اور سے شادى نہيں كرتا اور زانى عورت كسى زانى يا مشرك مرد كے علاوہ كسى اور سے شادى نہيں كرتى، اور مومنوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے النور ( 3 ).
اس مسئلہ كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 11195 ) اور ( 2527 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
چنانچہ اگر وہ اس لڑكى سے شادى كرنا چاہے تو يہ توبہ اور اسلام قبول كرنے اور نماز كى پابندى كرنے اور ان دونوں كا زنا كارى سے توبہ كرنے كے بعد ممكن ہے.
يہ تو اس حالت ميں ہے اگر وہ شادى كرنا چاہے.
اور ہمارے ذمہ اسے نصيحت كرنا لازمى ہے كہ ہم خير و بھلائى كى طرف اس كى راہنمائى كريں، اور اس كے دين اور دنيا ميں اس كى اصلاح كريں، اور وہ يہ كہ وہ اللہ تعالى كے ہاں سچے اور پكے دل سے توبہ كرے، اور بغير كسى تردد اور دير لگائے اس لڑكى كو چھوڑ دے، اور اس كے علاوہ عفت و عصمت كى مالك كسى مسلمان لڑكى كو تلاش كر كے اس سے شادى كرے.
كيونكہ اگر وہ شخص اللہ كى جانب توبہ كرتا ہے تو وہ اس كا زيادہ محتاج ہے كہ اس كے ساتھ كوئى ايسى عورت ہو جو عفت و عصمت كى مالك ہو اور اس كے دين كو سمجھے اور اسے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے پر ابھارے.
ليكن يہ كتابى لڑكى اگر زنى سے توبہ بھى كر ليتى ہے تو يہ لڑكى اس كے ليے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى ميں ممد و معاونت ثابت نہيں ہو گى، اور نہ ہى اس كے گھر اور مال و عزت كى امين ہو گى، اور نہ ہى اس كى اولاد كى تربيت كے قابل ہے، چنانچہ اس نصيحت ميں ہمارى نيت تو اس كے ليے خير و بھلائى ہى ہے، اسے جوش ميں آنے سے دور رہنا اور اجتناب كرنا چاہيے تا كہ اسے معلوم ہو كہ يہى صحيح اور درست ہے.
اور اگر وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائے تو اسے بہت سے ايسے مسلمان اشخاص نظر آئيں كے جنہوں نے غير مسلم عورتوں سے شادياں كيں تو ان كى حالت اور برى ہو گئى اور وہ اپنے كيے پر نادم نظر آئينگے، اور وہ يہ تمنا كرتے نظر آئينگے كہ كاش وہ غير مسلم لڑكى سے شادى نہ كرتے.
برائے مہربانى آپ سوال نمبر ( 20227 ) اور ( 45645 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں، كيونكہ يہ بہت اہميت كے حامل ہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم .