ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

اہل كتاب كى عورتوں سے شادى كرنا

45645

تاریخ اشاعت : 22-02-2012

مشاہدات : 8282

سوال

كيا كسى مسلمان شخص كے ليے كسى يہودى يا عيسائى عورت سے شادى كرنا حلال ہے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماريہ قبطيہ سے شادى كى تھى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماريہ قبطيہ سے شادى نہيں كى بلكہ وہ تو آپ كى باندى اور لونڈى تھى، جو صلح حديبيہ كے بعد مصر كے بادشاہ مقوقس نے تحفہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دى.

اور لونڈى سے استمتاع اور مباشرت كرنا جائز ہے چاہے وہ مسلمان نہ بھى ہو كيونكہ وہ ملك يمين يعنى لونڈى ہوتى ہے اور اللہ تعالى نے لونڈى مباح كى ہے اور اس كے ليے مسلمان ہونے كى بھى شرط نہيں ركھى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كرتے ہيں بجز اپنى بيويوں كے يا لونڈيوں كے تو وہ قابل ملامت نہيں المومنون ( 5 - 6 ).

رہا مسئلہ نصرانى و عيسائى يا يہودى عورت سے شادى كرنا تو يہ بھى نص قرآنى سے جائز ہے، جيسا كہ سورۃ المآئدۃ ميں اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

آج كے دن تمہارے ليے پاكيزہ اشياء حلال كر دى گئى ہيں، اور اہل كتاب كا كھانا تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا كھانا ان كے ليے حلال ہے، اور پاكباز مومن عورتيں اور ان لوگوں كى پاكباز عورتيں جنہيں تم سے قبل كتاب دى گئى ہے جب تم انہيں ان كے مہر ادا كر دو، اور وہ پاكدامنى اختيار كرنے والى ہوں، نہ كہ خفيہ دوست بنانے واليں اور فحاشى نہ كرنے والى المآئدۃ ( 5 ) .

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نص قرآنى كى بنا پر كتابى عورت سے نكاح كرنا جائز ہے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور پاكباز مومن عورتيں، اور ان لوگوں كى پاكباز عورتيں جنہيں تم سے قبل كتاب دى گئى ہے .

يہاں محصنات سے مراد پاكدامن عورتيں ہيں، اور محصنات المحرمات جن كا ذكر سورۃ النساء ميں ہوا ہے ان سے مراد شادى شدہ عورتيں ہيں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: جو محصنات مباح ہيں وہ آزاد عورتيں ہيں، اسى ليے اہل كتاب كى لونڈي حلال نہيں، ليكن پہلا كئى ايك وجوہات كى بنا پر پہلا قول صحيح ہے، پھر اس كے بعد ابن قيم رحمہ اللہ نے ان وجوہات كو بھى ذكر كيا ہے.

مقصد يہ كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ہمارے ليے اہل كتاب كى پاكدامن اور عفت و عصمت كى مالك عورتيں مباح كى ہيں، اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نے اس پر عمل بھى كيا، چنانچہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے نصرانى عورت سے شادى كى، اور طلحہ بن عبيد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى ايك عيسائى عورت سے شادى كى، اور حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك يہودى عورت سے شادى كى تھى.

عبد اللہ بن احمد كہتے ہيں:

" ميں نے اپنے باپ سے دريافت كيا كہ: كيا مسلمان شخص كسى عيسائى يا يہودى عورت سے شادى كر سكتا ہے ؟

انہوں نے جواب ديا:

ميں تو يہ پسند نہيں كرتا، ليكن اگر كوئى ايسا كرتا ہے تو بعض صحابہ كرام نے بھى اس پر عمل كيا ہے.

ديكھيں: احكام اھل الذمۃ ( 2 / 794 - 795 ).

اگر ہم اس كے جواز كا كہيں تو بلاشك و شبہ يہ واضح نص قرآنى كى بنا پر ہے، ليكن ہمارى رائے يہ ہے كہ كئى ايك امور كى بنا پر مسلمان شخص كو اس وقت اہل كتاب كى عورت سے شادى نہيں كرنى چاہيے:

پہلى وجہ:

اہل كتاب كى عورت سے شادى كرنے كى شرط ہے كہ وہ عورت عفت و عصمت كى مالكہ اور پاكدامن ہو، ليكن اس وقت اس معاشرے اہل كتاب كى عورتيں عفت و عصمت كى مالكہ بہت ہى كم ہونگى.

دوسرى:

اہل كتاب كى عورت سے شادى كى شروط ميں شامل ہے كہ ولايت و فوقيت مسلمان شخص كو حاصل ہو، ليكن اس دور ميں جو حاصل ہے وہ يہى كہ جو شخص كافر ممالك ميں جا كر اہل كتاب كى عورت سے شادى كرتا ہے تو وہ اسے اس عورت سے اپنے قوانين كے مطابق شادى كرنے كى اجازت ديتے ہيں، اور وہ اس مسلمان شخص پر اپنا قانون لاگو كرتے ہيں جس ميں ظلم و ستم اور بہت كچھ خلاف شريعت پايا جاتا ہے.

اور پھر وہ مسلمان مرد كى ولايت كا بھى اعتراف نہيں كرتے كہ وہ اپنى بيوى اور بچوں كا ذمہ دار اور ان پر حاكم ہو گا، جيسے ہى عورت ناراض ہوئى تو گھرانہ تباہ ہو جاتا ہے اور وہ عورت اپنے ملك كے قانون كى طاقت سے بچوں كو لے كر چلى جاتى ہے، اور اگر كفريہ ملك ميں نہ بھى رہتى ہو بلكہ مسلمان ملك ميں منتقل ہونے كے بعد بھى خاوند سے ناراضگى ہونے كى صورت ميں وہ اپنے سفارت خانے كى مدد سے بچوں كو چھين ليتى ہے، مسلمان ممالك كا ان كفريہ ممالك كے سامنے كمزور ہونا اور سفارت خانے كے سامنے كچھ نہ كر سكنا كسى پر بھى مخفى نہيں ہے، انا للہ و انا اليہ راجعون

تيسرى:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں مسلمان عورتوں ميں سے بھى دين كا التزام كرنے والى عورت سے شادى كرنے كى ترغيب دلائى ہے، ليكن اگر مسلمان عورت اللہ كى توحيد كو ماننے كے باوجود دين اور اخلاق كى مالكہ نہ ہو تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسى عورت سے شادى كى ترغيب نہيں دلائى.

كيونكہ شادى صرف مباشرت و جماع و استمتاع كا نام نہيں ہے، بلكہ شادى تو اللہ سبحانہ و تعالى اور خاوند كے حقوق كى ديكھ بھال كا نام ہے، اور اسى طرح خاوند كے گھر اور اس كى عزت و مال كى حفاظت اور بچوں كى تربيت كو شادى كہا جاتا ہے، تو پھر ايك كتابى عورت بچوں كى تربيت كس طرح كر سكتى ہے كہ وہ اللہ كى اطاعت كريں جبكہ وہ خود اللہ كى اطاعت نہيں كرتى، اور جس دين كو وہ خود نہيں مانتى اس دين پر اپنے بچوں كى تربيت كيسے كريگى.

اور پھر خاوند اپنے بچوں كو ايسى ماں كے سامنے چھوڑ دے گا جو اللہ كے ساتھ شرك كرتى اور اللہ تعالى كے ساتھ كفر كرتى پھرے ؟

اس ليے اگر ہم اس شادى كے جواز كے قائل بھى ہيں ليكن ہم اس كى نصيحت نہيں كرتے، اور نہ ہى اس كى ترغيب دلاتے ہيں، كيونكہ اس كا انجام اچھا نہيں، لہذا عقل و دانش ركھنے والے مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ ديكھے كہ اپنا نطفہ كہاں ركھ رہا ہے، اور اپنے بچوں كے دين اور ان كے مستقبل كو مدنظر ركھے، اسے اس كى شہوت اور دنيا كى چكا چوند روشني اندھا نہ كر دے، كہ دنيا كى مصلحت كى خاطر يا ظاہرى جمال و عيش كى خاطر كہ اسے وہاں كى شہريت حاصل ہو جائيگى وہ اپنى اولاد كا مستقبل اور دين تباہ كر كے بيٹھ جائے، كيونكہ يہ ظاہرى دنيا اور جمال و خوبصورتى ہے، اصل خوبصورتى و جمال تو اخلاق فاضلہ كى خوبصورتى ہے.

اسے معلوم ہونا چاہيے كہ اگر اس نے اس طرح كى شادى صرف اس ليے ترك كى كہ وہ اپنے دين اور اپنے بچوں كى افضليت چاہتا ہے اور دين كو ترجيح ديتا ہو تو اللہ سبحانہ و تعالى اسے اس كا نعم البدل ضرور عطا فرمائيگا.

كيونكہ جو كوئى شخص بھى اللہ كے ليے كسى چيز كو ترك كرتا ہے تو اللہ تعالى اسے اس سے بھى بہتر عطا فرماتا ہے "

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حديث ميں ہمارى راہنمائى فرمائى ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو اپنى خواہش سے كلام نہيں كرتے بلكہ اللہ كى وحى سے زبان كو حركت ديتے ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى سيدھى راہ كى ہدايت دينے والا ہے، مزيد آپ سوال نمبر ( 2527 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب