اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مسلمان کس کتابی عورت سے شادی کرسکتا ہے

سوال

میں مندرجہ ذیل عبارت کا معنی پوچھنا چاہتا ہوں :
اہل کتاب یھودی یا عیسائي عورتوں میں سے عفیف سے شادی کرنا ؟
کیا کتابی عورت سے بوس وکنار شادی میں رکاوٹ ہے ؟
میں نے آپ کے جواب میں یہ پڑھا ہے کہ مسلمان کو عفت و عصمت کی مالک لڑکی سے شادی کرنی چاہیے تو کیا یہ صرف کتابی لڑکی کے لیے ہے یا کہ مسلمان لڑکی بھی اس میں شامل ہے ؟
اورکیا بوس وکنار عفاف کی تعریف میں شامل ہے ؟ اورایسے مسلمان نوجوان کو آپ کیا نصیحت کریں گے جس کا اعتقاد ہو کہ شادی سے قبل لمس ضروری ہے ؟
میری گزارش ہے کہ یہ سوال نشر نہ کیا جائے بلکہ میرے اورآپ کے مابین ہی راز رہنا چاہیے اس کا جواب مجھے آپ ای میل کردیں ۔ میں آپ کے تعاون پر مشکور ہوں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


ابو جعفر محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب : جامع البیان عن تاویل آی القرآن میں المحصنۃ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں :

جب کوئي عورت عفت وعصمت اختیار کرے تو کہا جاتا ہے حصنت ، تحصن ، حصانۃ ، اور حاصن من النساء یعنی عورتوں میں سے عفیفہ عورت کو حاصن کہا جاتا ہے ۔۔۔ اورایک قول یہ بھی ہے : شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی اوربے حیائي سے بچنے والی کو محصنہ کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا اورمریم بنت عمران جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ۔

یعنی اس نے شک وشبہ سے اپنی حفاظت کی اورفجور وبےحیائي سے اپنے آپ کو روکا ، پھر اس کے بعد رحمہ اللہ تعالی نے مندرجہ ذيل فرمان باری تعالی کی تفسیر کے بارہ میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں :

والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكـم … اور مومنوں میں سے پاکباز عورتیں اورجنہیں تم سے قبل کتاب دی گئي ہے ان کی پاکباز عورتیں ۔۔۔۔ ۔

ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ دوسروں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان سےیہ مراد لیا ہے :

مومنوں میں سے پاکباز عورتیں اورجنہیں تم سے قبل کتاب دی گئي ہے ان کی پاکباز عورتیں

یعنی دونوں فریقوں سے پاکبازچاہے وہ تمہاری آزاد عورتیں ہوں یا لونڈیاں اللہ تعالی نے اس قول میں سے اہل کتاب لونڈیاں جودین والی ہوں ان سے نکاح کرنا جائز ہے اورمومنوں اور اہل کتاب میں سے حرام کاری کرنے والی عورتیں حرام کی گئي ہیں ۔

پھر اس کے بعد رحمہ اللہ تعالی نے اس قول پر کچھ اثر بھی نقل کرنے کے بعد یہ بھی کہا ہے کہ :

اہل تفسیر کا مندرجہ ذيل فرمان کے حکم میں اختلاف ہے :

اورجنہیں تم سے قبل کتاب دی گئي ہے ان کی پاکباز عورتیں کیا اس کا حکم عام ہے یا کہ خاص ؟

کچھ مفسرین کا کہنا ہے : یہ ان میں سے عفائف کے بارہ میں عام ہے ، کیونکہ محصنات ہی عفائف ہيں اورمسلمان کے لیے ہر اہل کتاب کی آزاد اورلونڈی سے نکاح کرنا جائز ہے ، چاہے وہ ذمیہ ہویا پھر حربیہ ۔

اوراس میں انہوں نے مندرجہ ذيل فرمان باری تعالی کے ظاہرسے دلیل لی ہے :

اورجنہیں تم سے قبل کتاب دی گئي ہے ان کی پاکباز عورتیں

یہاں پر معنی عفائف ہے چاہے وہ کوئي بھی ہو ، یہ قول محصنات سے عفائف مراد لینےوالوں کا ہے ۔

اورکچھ دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ یہاں سے اہل کتاب کی وہ عورتیں مراد ہيں جو مسلمانوں کے ذمہ اورمعاھدہ میں ہوں لیکن جو اہل حرب کتابی کی عورتیں مسلمان پر حرام ہیں ۔

ابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے کتابی عورت سے نکاح میں ایک بہت ہی اہم شرط ذکر کی ہے جس پر ہر مسلمان کو غور وفکر کرنا ضروری ہے جوبھی کفار کے ممالک میں رہتا ہوا ان سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ اس پر غور کرے کہ :

نکاح کرنے والا ایسی جگہ ہو جہاں پر اسے اپنی اولاد کے بارہ میں کفر پر مجبور کیے جانے کا خدشہ نہ ہو ۔ ا ھـ

دیکھیں جامع البیان عن تاویل آي القرآن ( 8 / 165 ) ۔

اوراس کلام کو ہمارے موجودہ دور میں اس طرح فٹ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کفار ممالک میں رہائش پذیر نہ ہو جہاں پر مسلمان کو اپنی اولاد کو مجبورا کفریہ دین پر پرورش کرنی پڑے وہ اس طرح کہ بچے کو اجباری طور پر کچھ نہ کچھ عیسائی دین پڑھایا جائے اورہر اتوار کے دن اسے گرجا گھر لے جایا جائے یا پھر یہ قانون ہو کہ کافرہ عورت جب چاہے اپنے بچے کو اپنی کافر قوم کی دین کی تربیت دینا شروع کردے ، ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ذلت ورسوائی سےبچا کررکھے ، اورہمیں سلامتی وعافیت سے نوازے ۔

اورشیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ تعالی اپنی تفسیر ( 1 / 458 ) میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

اورتمہارے لیے آزاد عورتیں حلال کردی گئيں ہیں : یعنی آزاد اورعفیت وعصمت کی مالک ، مومنوں میں سے اور محصنات یعنی آزاد اورعفت وعصمت کی مالک ان لوگوں میں سے جنہيں تم سے قبل کتاب دی گئي ہے یعنی یھودی اورنصاری کی عورتیں ، اوریہ مندرجہ ذیل فرمان باری تعالی کے لیے مخصص ہے :

فرمان باری تعالی ہے :

اور تم مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہیں لے آتیں ۔

اور بے حیائی کرنے والی اورفاجر قسم کی زانی عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں چاہے وہ عورتیں مسلمان ہوں یا کتابی ، جب تک وہ توبہ نہیں کرتیں ان سے نکاح کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

زانی مرد زانیہ یا پھر مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہيں کرتا ، اسی آیت کے آخر میں جا کرفرمایا کہ یہ مومنوں پر حرام ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد