الحمد للہ.
ايجاب و قبول نكاح كے اركان ميں شامل ہوتا ہے، اور ايجاب و قبول كے بغير نكاح صحيح نہيں.
ايجاب ولى يا اس كے وكيل كى جانب سے صادر شدہ الفاظ كو كہتے ہيں.
اور خاوند يا اس كے وكيل كى جانب سے صادر شدہ الفاظ كو قبول كہا جاتا ہے.
ايجاب و قبول ميں شرط يہ ہے كہ يہ ايك ہى مجلس ميں ہو، كشاف القناع ميں درج ہے:
" جب تك مجلس ميں ہوں تو ايجاب كے بعد قبول ميں تاخير صحيح ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اسى مجلس ميں كسى دوسرے ايسے كام ميں مشغول نہ ہوں جس سے عام طور پر ايجاب و قبول ختم ہو جاتا ہے، چاہے فاصلہ كتنا ہى ہو كوئى فرق نہيں پڑتا.
اور اگر ايجاب كے بعد قبول كرنے سے قبل جدا ہو جائيں تو عقد نكاح باطل ہو جاتا ہے، اور اسى طرح اگر وہ ايسے كام ميں مشغول ہو جائيں جس سے عرف عام ميں ايجاب كے بعد قبول ختم ہو جاتا ہے تو بھى عقد نكاح باطل ہو جائيگا، كيونكہ يہ اس عقد سے اعراض ہے، اور انكار كے مشابہ ہے " انتہى بتصرف
ديكھيں: كشاف القناع ( 5/ 41 ).
اسى طرح عقد نكاح صحيح ہونے كے ليے گواہ بھى شرط ہيں.
اس بنا پر اہل علم جديد وسائل مثلا ٹيلى فون اور انٹرنيٹ كے ذريعہ عقد نكاح كرنے ميں اختلاف ركھتے ہيں:
كچھ اہل علم تو گواہى كى عدم موجوگى كى بنا پر اس سے منع كرتے ہيں، ليكن يہ تسليم كرتے ہيں كہ ٹيلى فون پر ايك ہى وقت ميں موجود دو اشخاص كو ايك ہى مجلس كا حكم ديا جائيگا، اسلامى فقہ اكيڈمى نے بھى اس پر ہى اعتماد كيا ہے.
اور كچھ اہل علم نكاح كى احتياط كے ليے اس سے منع كرتے ہيں؛ كيونكہ كسى دوسرے كى آواز نكالنا اور اس سے دھوكہ كھا جانا ممكن ہے، مستقل فتوى كميٹى نے يہى فتوى ديا ہے.
اور كچھ اہل علم نے اس صورت ميں جائز ہونے كا فتوى ديا ہے كہ اگر كھلواڑ كا خطرہ نہ ہو يعنى دھوكہ نہ خدشہ نہ ہو تو جائز ہوگا، شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى فتوى ديا ہے.
اس سے يہ معلوم ہوا كہ اتحاد مجلس يعنى ايك مجلس ميں اكٹھے ہونے ميں اشكل نہيں ہے، كيونكہ ٹيلى فون يا انٹرنيٹ كے ذريعہ رابطہ كى صورت ميں ايك ہى وقت ميں دونوں طرف موجود اشخاص كو ايك ہى مجلس كا حكم حاصل ہوتا ہے.
اور اس عقد نكاح پر گواہى بھى ممكن ہے، وہ اس طرح كہ ٹيلى فون يا انٹرنيٹ كے ذريعہ متكلم كى آواز سن كر گواہى دى جا سكتى ہے، بلكہ اس ترقى يافتہ دور ميں تو وسائل اتنے ترقى كر چكے ہيں كہ ايجاب و قبول كے ذريعہ ولى كو شكل و صورت كا مشاہدہ كرنا بھى ممكن ہے، اور اسى طرح خاوند كو بھى ديكھا جا سكتا ہے.
اس ليے اس مسئلہ ميں يہى قول ظاہر ہوتا ہے كہ: اگر كھلواڑ اور دھوكہ كا خدشہ نہ رہے اور خاوند اور ولى كى پہچان ہو جائے اور ايجاب و قبول كو دو گواہ سن رہے ہوں تو ٹيلى فون اور انٹر نيٹ كے ذريعہ نكاح جائز ہے.
اوپر بيان كيا جا چكا ہے كہ شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھى يہى فتوى ديا ہے، اور مستقل فتوى كميٹى كے جس فتوى ميں احتياط كى بنا پر اور دھوكہ كے خوف كى وجہ سے اس طرح نكاح كرنے سے منع كيا گيا ہے، اس فتوى كا تقاضہ بھى يہى ہے.
اور جو اور سلامتى و امن چاہے اس كے ليے ٹيلى فون اور انٹرنيٹ كى بجائے كسى دوسرے كو وكيل بنا كر نكاح كر لينا چاہيے، لہذا خاوند يا عورت كا ولى كسى دوسرے شخص كو اپنا وكيل بنا دے جو دو گواہوں كى موجودگى ميں عقد نكاح مكمل كرے.
ذيل ميں ہم اہل علم كى كلام اور فتوى جات نقل كرتے ہيں:
اول:
اسلامى فقہ اكيڈمى كا فيصلہ:
جديد وسائل كے ذريعہ معاہدے اور عقد وغيرہ طے كرنے كے متعلق حكم كے بارہ ميں فيصلہ نمبر ( 52 ) ( 2 / 6 ).
فقہ اكيڈمى نے جديد وسائل كے ذريعہ معاہدہ جات طے كرنے جائز قرار دينے كے بعد كہا ہے:
" سابقہ قواعد و اصول نكاح كو شامل نہيں كيونكہ عقد نكاح ميں گواہى كى شرط ہے " انتہى
دوم:
مستقل فتوى كميٹى كا فتوى:
سوال:
اگر نكاح كى شروط اور اركان متوفر ہوں، ليكن ولى اور خاوند دونوں عليحدہ عليحدہ ملكوں ميں ہوں تو كيا ٹيلى فون پر نكاح كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" ان ايام ميں دھوكہ اور فراڈ كى كثرت اور لوگوں كا ايك دوسرے كى آواز كى نقل اتارنے كى مہارت اور دوسرے كى آواز ميں كلام كرنے تجربہ كو ديكھتے ہوئے، حتى كہ اس وقت تو ايك ہى شخص ايك ہى وقت ميں چھوٹے بڑے مرد و عورت اور بچوں كى آواز نكالنے كى طاقت ركھتا ہے اور ا نكى آواز ميں بات چيت كر سكتا ہے اور مختلف زبانوں ميں بات كر كے سامع كے ذہن ميں كئى ايك اشخاص ہونے كا گمان ڈال سكتا ہے، حالانكہ حقيقت ميں تو وہ اكيلا اور ايك ہى شخص ہے كو مد نظر ركھتے ہوئے.
اور اس كے ساتھ ساتھ شريعت اسلاميہ ميں شرمگاہوں كى حفاظت اور عفت و عصمت كى ديكھ بھال اور دوسرے معاملات سے بھى زيادہ اس ميں احتياط اور ديكھ بھال كو مد نظر ركھتے ہوئے كميٹى كى رائے يہ ہے كہ: عقد نكاح ميں ايجاب و قبول اور وكيل بنانے كو ٹيلى فون كالز پر انحصار نہ كيا جائے تا كہ شريعت اسلاميہ كے مقاصد پورے ہو سكيں اور شرمگاہوں اور عفت و عصمت كى مزيد حفاظت ہو سكے، اور اہل اہواء و خواہش كے پيروكار دھوكہ و فراڈ دينے والے لوگوں كى عزت كے ساتھ نہ كھيل سكيں.
كميٹى كى رائے يہى ہے كہ عقد نكاح كے ايجاب و قبول اور وكيل بنانے ميں ٹيلى فونك رابطوں پر اعتماد نہ كيا جائے؛ تا كہ مقاصد شريعت كو صحيح طرح پورا اور مكمل كيا جا سكے، اور شرمگاہوں اور عفت و عصمت اور عزتوں كى مزيد حفاظت كى جا سكے، تا كہ خواہشات كے پيچھے بھاگنے والے اور دھوكہ و فراڈ كرنے والے لوگوں سے كھلواڑ نہ كر سكيں"
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن منيع.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 91 ).
سوم:
شيخ ابن باز رحمہ اللہ فتوى:
سوال:
ميں ايك لڑكى سے نكاح كرنا چاہتا ہوں، ليكن اس لڑكى كا والد كسى دوسرے ملك ميں ہے، مالى حالت كے پيش نظر ميں اس كے والد كے پاس نہيں جا سكتا تا كہ عقد نكاح كے ليے سب ايك جگہ جمع ہو سكيں، ميں بھى كسى دوسرے ملك ميں بستا ہوں، تو كيا ميرے ليے اس كے والد سے ٹيلى فون كے ذريعہ رابطہ كر كے عقد نكاح كرنا جائز ہے، ايجاب و قبول ميں وہ درج الفاظ كہے:
ميں نے اپنى فلاں بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا، اور ميں اسے قبول كر لوں، اور لڑكى بھى اس پر راضى ہو، اور ميرى اور لڑكى كے والد كى سپيكر پر دو عادل مسلمان گواہ بھى كلام سن رہے ہوں ؟ كيا يہ عقد نكاح شرعى شمار ہو گا يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" ويب سائٹ كى جانب سے شيخ ابن باز رحمہ اللہ كو مندرجہ بالا سوال كيا گيا تو انہوں نے درج ذيل جواب ديا:
" جو كچھ سوال ميں بيان كيا گيا ہے اگر وہ سب صحيح ہو ( اور اس ميں كھلواڑ اور دھوكہ نہ ہو ) تو پھر مقصد پورا ہو جائيگا، كہ عقد نكاح كى شرعى شروط پورى ہونگى اور اس طرح عقد نكاح بھى صحيح ہوگا "
مزيد آپ سوال نمبر ( 2201 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .