الحمد للہ.
اگر آپ نے فرض حج ادا کر لیا ہے تو پھر آپکو اس سال نفلی حج کرنے کا اختیار ہے، یا آپ اپنے اہل خانہ کی مشغولیت کی بنا پر آئندہ سال بھی کر سکتے ہو، بلکہ آپکو یہاں تک اختیار ہے کہ آپ چاہیں تو دوبارہ حج نہ کریں؛ اس لئے کہ یہ حج نفلی ہوگا فرض نہیں ہوگا۔
اور اگر سوال فرض حج کے بارے میں ہے، تو آپ کے سوال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ کیا حج کرنا فوراً واجب ہے یا اس میں کچھ تاخیر کی جاسکتی ہے؟ تو اس بارے میں فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے، اگرچہ راجح یہ ہی ہے کہ فوری طور پر حج کی ادائیگی کرنی چاہئے، چنانچہ جس کے پاس زادِ راہ، اور سواری موجود ہے اس پر حج کرنا ضروری ہے، اس کیلئے حج میں تاخیر کرنا جائز نہیں ، مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (41702) ملاحظہ فرمائیں۔
مذکورہ بالا بیان کے بعد: اگر حج پر جانے کی وجہ سے آپکے اہل خانہ اور بچے کو کوئی نقصان نہ ہو تو آپ کو اس سال حج کرنا پڑے گا، اور آپ کیلئے اپنے اہل خانہ کو ساتھ لے جانے کی چاہت کی وجہ سے حج مؤخر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
رہا معاملہ آپکی بیوی کا تو اگر اسکے پاس حج کیلئے پیسے ہیں یا آپ اسکے حج کا خرچہ دینا چاہتے ہیں، اور پھر حج کرنے کی وجہ سے آپکی بیوی یا بچے پر کوئی مضر اثرات رونما نہیں ہوتے ، یا وہ اپنے شیر خوار بچے کو کسی کے پاس چھوڑ سکتی ہے تو اس پر بھی اسی سال حج کرنا لازم ہوگا، اور بصورتِ دیگر اس کیلئے حج مؤخر کرنے کی اجازت ہوگی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ، موانع کی عدم موجودگی اور شرائط کےپورے ہونے کی بنا پرخاوند یا بیوی پر حج واجب ہوگا ، اس لئے خاوند اپنی بیوی کو ساتھ لے جانے کی خاطر حج کو مؤخر نہ کرے۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میری بیوی نے ابھی تک فریضہ حج ادا نہیں کیا، ہمارا ایک بیٹا ہے جسکی عمر صرف چار ماہ ہے، اور وہ اپنی ماں کا دودھ پیتا ہے، تو کیا اسے حج کرنا چاہئے یا اپنے بچے کے پاس رہنا چاہئے؟ اور حج کرنے کی صورت میں اس کیلئے مانع حیض گولیاں استعمال کرنا اسکے لئے بہتر ہے یا نہیں؟ وضاحت کردیں ، اللہ آپکو کامیاب کرے۔
تو آپ نے جواب دیا: اگر ماں کے سفر کرنے کی وجہ سے بچے پر کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے ، یعنی اپنی ماں کے علاوہ کسی اور کا دودھ پی لے، اور اس کی دیکھ بھال کیلئے کوئی موجود ہوتو اس پر حج کرنے کی صورت میں کوئی حرج نہیں خاص طور پر اگر اسکا حج فرض حج ہو، اور اگر اس کے حج کرنے کی وجہ سے بچے کو کوئی نقصان ہوگا تو اس کیلئے حج کرنا جائز نہیں ، چاہے فرض حج ہی کیوں نہ ہو؛ اس لئے کہ دودھ پلانے والی خواتین اپنے بچے کی وجہ فرض روزے چھوڑ سکتی ہے ، تو اگر اسکے بچے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو حج کو مؤخر کیوں نہیں کرسکتی ؟ اس لئے اگر بچے کے بارے میں خدشہ ہو تو واجب یہی ہے کہ حج نہ کرے اور بچے کے پاس رہے، اور جب آئندہ سال بچہ بڑا ہوجائے تو حج کرلے، نیز اس خاتون پر حج نہ کرنے کی وجہ سے کوئی حرج نہیں ، اس لئے کہ اس صورت میں فوری طورپر اس کیلئے حج کرنا ضروری نہیں۔
رہا معاملہ حج یا عمرے کے دوران مانع حیض گولیوں کے استعمال کا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں؛ اس لئے کہ یہ اسکی ضرورت ہے، لیکن اس بارے میں پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے، اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ گولیاں ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو" انتہی
"اللقاء الشهري" (10/25)
واللہ اعلم .