الحمد للہ.
جو شخص حج كى استطاعت ركھتا ہو اور حج كے فرضى ہونے كى تمام شروط متوفر ہوں تو اس پر فورا حج فرض ہو جاتا ہے اس ليے اس كى ادائيگى ميں تاخير كرنى جائز نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى اپنى مايہ ناز كتاب " المغنى " ميں كہتے ہيں:
" جس پر حج واجب ہو چكا ہو اور وہ اس كے ليے حج كرنا ممكن بھى ہو تو اس پر حج كى فورى ادائيگى واجب ہو گى، اور اس كے ليے حج كى ادائيگى ميں تاخير كرنى جائز نہيں، امام ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہما اللہ تعالى كا قول يہى ہے.
كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى نے حج فرض كيا ہے جو وہاں تك پہنچنے كى استطاعت ركھے، اور جو كوئى كفر كے تو اللہ تعالى ( اس سے ) بلكہ سارے جہان والوں سے بے پرواہ ہے آل عمران ( 97 ).
امر فورا پر دلالت كرتا ہے، اور حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان مروى ہے:
" جو حج كرنا چاہتا ہے وہ جلدى كرے "
مسند احمد، ابو داود، اور ابن ماجہ نے اسے روايت كيا ہے، اور مسند احمد اور ابن ماجہ كى روايت ميں ہے كہ:
" ہو سكتا ہے مريض بيمار ہو جائے، اور سوارى گم ہو جائے اور كوئى ضرورت پيش آجائے "
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو حسن قرار ديا ہے. انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
امر فورا پر دلالت كرتا ہے كا معنى يہ ہے كہ:
مكلف پر واجب ہے كہ اسے جس كام كا حكم ديا جارہا ہے جيسے ہى اس كا كرنا ممكن ہو اسے فورى طور پر سرانجام دے، اور اس ميں بغير كسى عذر كے تاخير كرنى جائز نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا حج فورى طور پر واجب ہوتا ہے يا كہ اس ميں تاخير ہو سكتى ہے؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" صحيح يہى ہے كہ حج فورى طور پر واجب ہوتا ہے، اور جو انسان بيت اللہ كا حج كرنے كى استطاعت ركھتا ہو اس كے ليے تاخير كرنا جائز نہيں، اور اسى طرح باقى شرعى واجبات ميں بھى جب اس ميں كسى وقت يا سبب كى قيد نہ لگائى گئى ہو تو وہ فورى طور پر واجب ہوتے ہيں" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 13 ).
واللہ اعلم .