اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

میاں بیوی کے درمیان گھر کے اخراجات پر تنازعہ سے متعلق نصیحت

سوال

ایک سائلہ کہتی ہے کہ وہ سعودی عرب میں کئی سال سے بطور استانی کام کر رہی ہے، تو اس کی شادی ہو گئی اور شادی کے بعد اس کا خاوند ساتھ آیا پہلے اس کا بھائی ساتھ ہوتا تھا، الحمد للہ ، اللہ تعالی نے ہمیں ایک بیٹا بھی دیا، میرا خاوند اپنی تعلیمی اہلیت کے مطابق کام کی تلاش میں رہا لیکن اسے کامیابی نہ ملی، آخر کار وہ مشرقی ریجن میں جہاں ہماری رہائش ہے کسی دکان پر کام کرنے لگا ، اور گھر کے اخراجات پر اختلافات شروع ہو گئے، تو کیا مجھ پر لازم ہے کہ میں گھر کے اخراجات برداشت کروں؟؛ کیونکہ میرا خاوند مجھے کہتا ہے کہ اگر میں گھر کے اخراجات نہ اٹھاؤں تو مجھے کام کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے؟ اور کیا میرے خاوند کا میری تنخواہ میں کوئی حق ہے؟ جو کہ میں اپنی محنت کے عوض حاصل کرتی ہوں؟ اور اگر میں اپنے گھر کے اخراجات برداشت کروں تو اس میں میرے ذمہ کتنا حصہ آتا ہے اور میرے خاوند کے ذمے کتنا آتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"ایسے میاں اور بیوی کے گھر کے اخراجات کا مسئلہ جو کہ ملازمت اور تلاش معاش کے سلسلے میں کسی دوسرے ملک میں ہیں ، انہیں آپس میں صلح صفائی سے کام لینا چاہیے، آپس میں جھگڑا مت کریں، اور جہاں تک بات ہے اخراجات کے واجب ہونے کی تو اس کی نوعیت مختلف بھی ہے اور قدرے مفصل بھی؛ چنانچہ اگر خاوند نے آپ سے نکاح کے وقت شرط لگائی تھی کہ گھر کے اخراجات دونوں مل کر پورے کریں گے وگرنہ وہ تمہیں ملازمت کرنے کی اجازت ہی نہیں دے گا تو مسلمانوں کو اپنی طے کردہ شرائط پوری کرنی چاہییں، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مسلمان اپنی شرائط پر قائم ہوں گے، ما سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال چیز کو حرام بنائے یا حرام چیز کو حلال قرار دے) اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ : (ایسی شرائط جنہیں پورا کرنا انتہا درجے کا حق بنتا ہے، وہ ہیں جن کو تم نے نکاح میں طے کر کے شرمگاہوں کا حلال کیا ہے) لہذا اگر تمہاری اس بارے میں شرائط طے ہوئی ہیں تو تم اپنی اپنی شرائط پوری کرو گے۔

اور اگر تمہارے درمیان ایسی شرائط طے نہیں ہوئیں تو تمام کے تمام اخراجات خاوند کے ذمے ہیں، بیوی پر گھر کے اخراجات نہیں ہوتے؛ کیونکہ گھر کے اخراجات مرد ہی اٹھاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ صاحب حیثیت مرد اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے۔ [الطلاق: 7] اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (اور تم مردوں پر ان خواتین کو عرف کے مطابق کھانا پینا اور لباس مہیا کرنا لازمی ہے) اس لیے نفقہ خاوند کے ذمے ہے، وہی گھر کی ضروریات پوری کرے گا اور اہل و عیال سمیت اپنے لیے بھی گھر کی تمام تر اشیا مہیا کرے گا، جبکہ بیوی کی تنخواہ وغیرہ بیوی کی ہی ہو گی؛ کیونکہ یہ تنخواہ خاتون کو اس کی محنت کے عوض ملتی ہے، اور اس مرد نے جب اس عورت سے نکاح کیا تھا تو وہ ملازمت کر رہی تھی، اور اس نے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی کہ گھر کے آدھے یا پورے یا کسی اور تناسب سے اخراجات عورت کے ذمے ہوں گے۔ لیکن اگر نکاح میں ایسی کوئی شرط لگائی گئی تھی جیسے کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے تو پھر مسلمان اپنی شرائط کو پورا کرنے کے پابند ہیں۔ اور اگر شادی کے وقت اسے معلوم تھا کہ عورت پڑھاتی ہے اور ملازمت کرتی ہے اس وقت وہ اس بات پر راضی تھا تو اب اسے اس بات پر اعتراض کرنے کی اجازت نہیں ہے وہ اس بارے میں جھگڑا نہیں کر سکتا، آپ کی تنخواہ آپ ہی کی ہو گی، الا کہ آپ اپنی تنخواہ سے تھوڑا بہت اسے خوشی کے ساتھ دے دیں تو یہ الگ بات ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:  فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا  اگر وہ خواتین خود اپنی خوشی سے کچھ دے دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔ [النساء: 4]

یہاں مناسب یہ ہے کہ آپ کچھ نہ کچھ حصہ ڈالیں ، میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ اپنی تنخواہ میں کچھ رقم دے دیا کریں، تا کہ وہ خوش ہو جائے اور جھگڑا ختم ہو جائے، آپ کے درمیان موجود تناؤ کا ازالہ ہو کر آپ سکون ، راحت اور اطمینان کی زندگی گزاریں، آپ دونوں آپس میں اتفاق کر لیں کہ ایک چوتھائی، ایک تہائی، یا آدھی تنخواہ گھر کے اخراجات میں شامل کریں، تا کہ آپ کا جھگڑا ختم ہو اور آپ کو باہمی شفقت، راحت اور اطمینان ملے۔

لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر مقامی عدالت میں دعوی دائر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ان شاء اللہ شرعی کورٹ میں آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

تاہم میری آپ دونوں کو نصیحت یہی ہے کہ آپ آپس میں صلح کر لیں، جھگڑا نہ کریں، اور عدالت سے رجوع مت کریں، بیوی سے گزارش ہے کہ اپنے مال میں سے تھوڑا بہت خاوند کو دینے پر راضی ہو جائے تا کہ جھگڑا ختم ہو، یا خاوند اللہ تعالی کی تقسیم پر راضی ہو جائے اور اپنی استطاعت کے مطابق نفقے کی ذمہ داری ادا کرے، اور آپ کی تنخواہ پر بالکل بھی نظر نہ رکھے، آپ دونوں کے درمیان یہی ہونا چاہیے۔

میں بار بار پھر وہی نصیحت کروں گا کہ آپ اپنی کچھ تنخواہ اسے دے دیں تا کہ خاوند خوش ہو جائے اور دونوں خیر کے کام میں ایک دوسرے کا تعاون کریں، کیونکہ گھر تو آپ دونوں کا ہے، بچے بھی آپ کے ہیں اور سب کچھ آپ دونوں کا ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ تھوڑی بہت اپنی تنخواہ میں سے خاوند کو دے دیں، تا کہ جھگڑا ہی ختم ہو۔ اللہ تعالی سب کو توفیق سے نوازے" ختم شد

ماخذ: سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فتاوی نور علی الدرب (3/1615)