الحمد للہ.
اول:
کسی بھی مسلمان مرد یا عورت کے لیے غیر اسلامی ملک میں رہائش پذیر ہونا جائز نہیں ہے، اگر کوئی وہاں رہنا چاہے تو اس کی کچھ شرائط ہیں۔ جبکہ مسلمان لڑکی کے لیے تو باہر رہنا اس وقت مزید منع ہو جاتا ہے جب بغیر محرم کے سفر کرے؛ کیونکہ محرم کے بغیر سفر سے متعدد دینی اور اخلاقی خطرات در پیش ہو سکتے ہیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (27211 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
اگر مالک مکان نے کرایہ دار پر شرط لگائی ہو کہ وہ اکیلا ہی رہائش رکھے گا، آگے کسی کو کرایہ پر نہیں دے گا، تو پھر اس شرط کو پورا کرنا واجب ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے معاہدوں کی پاسداری کا مطالبہ کیا گیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ
ترجمہ: اے ایمان والو! معاہدوں کی پاسداری کرو۔ [المائدۃ: 1]
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مسلمان اپنی شرائط پر قائم رہتے ہیں۔) ابو داود: (3594) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
لیکن اگر معاہدے میں کسی مہمان کو ٹھہرانا منع نہ ہو تو پھر آپ اسے اتنی دیر تک کے لیے ٹھہرا سکتی ہیں کہ وہ اپنے معاملات درست کر لے، اور رہائش کے لیے کوئی اور جگہ تلاش کر لے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ مالک مکان سے آپ اجازت لے لیں، اور انہیں پیشگی اطلاع بھی کر دیں تا کہ کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو۔
واللہ اعلم