سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

تنخواہ میں سے ماہانہ بچت پر زکاۃ کس طرح ادا کرے؟

سوال

میں ایک کمپنی میں تقریبا دو سال سے ملازمت کر رہا ہوں، اور ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ بچت کے طور پر جمع کرتا ہوں، اور اس طرح سے دسویں ماہ میں میرے پاس اُسوقت کے مطابق نصابِ زکاۃ کے برابر رقم جمع ہوگئی تھی ، اور اس کے بعد میرے پاس موجود رقم کم زیادہ ہوتی رہی لیکن نصابِ زکاۃ سے کم نہیں ہوئی، اب میں اکیسویں مہینے میں ہوں، اور اب میرے پاس تقریبا دو گنا رقم جمع ہوچکی ہے، اور نصاب بھی بدل چکا ہے، جسکی وجہ سے میرے لئے معاملات خلط ملط ہوگئے ہیں، اور مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں کیا کروں کہ کس نصاب پر اعتماد کروں؟ پرانا نصاب یا نیا؟ میرے پاس موجود رقم کو بنیاد بناوں ، یا جس رقم پر سال گزرا ہے صرف اسی رقم کا اعتبار ہوگا؟ از راہِ کرم !مجھے وضاحت سے بتلائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ایک مسلمان کی جانب سے ماہانہ تنخواہ کی بچت میں سے زکاۃ دینے کا آسان اور محفوظ ترین طریقہ یہ  ہے کہ :

ماہانہ تنخواہ سے کی جانے والی بچت جس مہینے میں زکاۃ کے نصاب کے برابر ہوجائے تو اس ماہ سے لیکر ایک اسلامی ہجری سال کے بعد جتنی بھی رقم آپکے پاس ہے ، ساری رقم کی زکاۃ ادا کریں، حتی کہ سب سے آخری مہینے میں کی جانے والی بچت کو بھی زکاۃ کیلئے شامل کرے، جس کو آپ نے ابھی چند دن پہلے ہی بچت کھاتہ میں شامل کیا ہے۔

چنانچہ جس نصاب پر ایک سال کی زکاۃ واجب تھی  اسکی زکاۃ آپ نے ادا کردی ہے۔

اور اسکے بعد والے مہینوں میں آپکی جمع شدہ بچت  کی زکاۃ آپ نے قبل از وقت ادا کردی ہے، اور زکاۃ وقت سے پہلے ادا کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"ماہانہ تنخواہ کی زکاۃ دینے کیلئے  اچھا، بہترین، اور آسان ترین راستہ یہ ہے کہ آپ کسی ماہ کو مقرر کر لیں، اور اس ماہ میں اپنے سارے مال کی زکاۃ دے دیں۔

مثال کے طور پر: ایک انسان کی عادت ہے کہ وہ ہر رمضان میں زکاۃ دیتا ہے، تو وہ ماہِ رمضان میں اپنے پاس موجود سارے مال کی زکاۃ نکال دیتا ہے، حتی کہ شعبان میں حاصل ہونے والی رقم کی بھی زکاۃ دے دیتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ بہت اچھا ہے، اور انسان اس طریقے کی بنا پر زکاۃ کے معاملے میں پر سکون رہتا ہے، اس سے پرسکون طریقہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔

اور اگر کوئی یہ کہے کہ شعبان میں ملنے والی تنخواہ پر تو ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں؟
تو ہم اسے کہیں گے: اس رقم کی زکاۃ ایڈوانس ادائیگی میں شمار ہوگی، اور انسان اپنے مال کی زکاۃ ایک یا دو سال قبل بھی ادا کر سکتا ہے۔

چنانچہ ہم کہیں گے کہ بہتر  یہ ہے کہ انسان کسی بھی ایک ماہ کو متعین کر لے، اور اس مہینے میں اپنے سارے مال  کو جمع کر کے اسکی زکاۃ ادا کر دے ، چاہے کچھ مال پر سال گزر چکا  ہو اور کچھ پر ابھی سال  گزرنا باقی ہو" انتہی
" مجموع فتاوى  و رسائل ابن عثیمین " (18/175)

اس سے پہلے بھی متعدد فتاوی جات میں تنخواہ سے زکاۃ ادا کرنے کی وضاحت کی گئی ہے، جسے آپ مندرجہ ذیل سوال نمبروں پر ملاحظہ کرسکتے ہیں: (26113) ، (50801) ، اور  (93414

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب