الحمد للہ.
اصل ميں جو مال عورت كى مليكت ہے چاہے وہ مہر كى رقم ہو يا تجارت يا پھر وراثت كا مال يا حكومت سے ملتا ہو اس ميں خاوند كا كوئى حصہ نہيں ہے، بلكہ يہ تو عورت كى ملكيت ہے، خاوند كے ليے اس وقت تك حلال نہيں جب تك اس كى بيوى راضى و خوشى اسے نہ دے.
اور بيوى كے مال كى ملكيت خاوند كو حاصل ہوتى تو پھر بيوى فوت ہو جانے كى صورت ميں بيوى كى سارى ميراث خاوند كو ملتى اور اس ميں كوئى دوسرا شريك نہيں ہو سكتا تھا، ليكن اس كا شريعت ميں كوئى وجود نہيں ملتا.
اس بنا پر بيوى كو حكومت كى جانب سے جو رقم بطور امداد حاصل ہوتى ہے وہ بيوى كى خاص ملكيت ہے، اور خاوند اس كو جبرا حاصل كرنا حلال نہيں، اور خاوند كا يہ كہنا كہ اسلام نے عورت كو براہ راست حكومت سے مال لينا مباح نہيں كيا، اس كى اس بات كى شريعت ميں كوئى دليل نہيں ہے، اس ليے اس ميں مرد و عورت سب برابر ہيں.
اس ليے خاوند كے ليے اپنى بيوى كى رضامندى كے بغير اس كا مال لينا حلال نہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو، اور اگر وہ اس ميں سے راضى و خوشى تمہيں كچھ دے ديں تو اسے خوشى كے ساتھ كھا لو النساء ( 4 ).
سوال نمبر ( 3054 ) كے جواب ميں كتاب و سنت اور علماء كرام كے اجماع كے دلائل بيان كيے جا چكے ہيں كہ خاوند پر اپنى بيوى كا نان و نفقہ اور رہائش وغيرہ واجب ہے، اور اس ميں خاوند كى استطاعت اور قدرت كو مدنظر ركھا جائيگا، اور يہ بھى بيان كيا گيا ہے كہ اگر بيوى مالدار بھى ہو تو اس كے مرضى اور خوشى كے بغير خاوند اس پر كوئى خرچ نہيں ڈال سكتا.
مزيد آپ بيوى كى تنخواہ كے متعلق معلومات حاصل كرنے كے ليے سوال نمبر ( 126316 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .