اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ملازمت كرنے والى بيوى كا نفقہ خاوند كے ذمہ اور بيوى كا تنخواہ كا مسئلہ

126316

تاریخ اشاعت : 22-06-2012

مشاہدات : 6500

سوال

ميں ملازمت كرتى ہوں اور مكمل ڈيوٹى ادا كرتى ہوں اس ليے ميرى جتنى بھى آمدنى ہوتى ہے ميں اپنے لباس اور جوتے اور صفائى وغيرہ كى اشياء پر صرف كرتى ہوں، ليكن گھر كا كرايہ اور بجلى وغيرہ كے بل اور كچھ دوسرے امور خاوند ادا كرتا ہے.
ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ خاوند كو كن اشياء ميں خرچ كرنا واجب ہے ؟
آيا اگر ميرا لباس پھٹا ہوا تو خاوند كو مجھے لباس لا كر دينا واجب ہے ؟
ميرا خاوند كہتا ہے كہ اگر تم چاہتى ہو كہ سارا خرچ ميں ہى برداشت كروں تو پھر ملازمت چھوڑ كر گھر بيٹھ جاؤ كيا اس كى بات صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال نمبر ( 3054 ) كے جواب ميں ہم كتاب و سنت اور اجماع كے كافى دلائل بيان كر چكے ہيں جن سے ثابت ہوتا ہے كہ خاوند كے ذمہ بيوى كا نان و نفقہ واجب ہے، اور يہ نفقہ خاوند كى وسعت اور استطاعت كے مطابق ہوگا، اور يہ بھى بيان ہوا ہے كہ خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كو اپنا خرچ خود برداشت كرنے كا ذمہ دار ٹھرائے، چاہے بيوى مالدار اور غنى بھى ہو، ليكن اگر بيوى اپنى مرضى سے اپنا خرچ خود كرتى ہے تو كوئى بات نہيں.

بيوى كے نان و نفقہ ميں اس كا گرمى اور سردى كا لباس بھى شامل ہے، اس كا يہ مطلب نہيں كہ لباس ہوتے ہوئے بھى ہر سال گرمى اور سردى كا لباس لے كر ديا جائے، اور ہر موسم ميں لباس خريدا جائے، بعض اوقات تو ايسا بھى ہوتا ہے اس كے پاس جو لباس ہے اس نے وہ زيب تن بھى نہيں كيا ہوتا، اور بعض كو ايك يا دو بار ہى پہنا ہوتا ہے.

اور نہ ہى ايسا ہو كہ لباس اسى صورت ميں لے كر ديا جائے جب لباس بالكل پھٹ جائے اور بوسيدہ ہو، بلكہ حسب ضرورت بيوى كو لباس لے كر دينا ہوگا، اور اس ميں خاوند كى لباس خريد كر دينے كى استطاعت كو مدنظر ركھا جائيگا، تا كہ يہ لباس خريدارى دوسرے معاملات ميں اثرانداز نہ ہو، قرآن مجيد ميں اسے معروف طريقہ يعنى بہتر اور اچھے طريقہ كے الفاظ سے بيان كيا گيا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور جس كا بچہ ہے اس كے ذمہ ان عورتوں كا نان و نفقہ اور ان كا لباس ہے اچھے اور معروف طريقہ سے، كسى بھى جان كو اس كى وسعت و طاقت سے زيادہ مكلف نہيں كيا جائيگا البقرۃ ( 233 ).

ابن كثير رحمہ اللہ الخبير كہتے ہيں:

" يعنى جس طرح ان جيسى عورتوں كى علاقے ميں عادت چل رہى ہو، اور اس ميں كوئى اسراف و فضول خرچى اور نہ ہى كوتاہى اور كم درجہ اختيار كيا جائے، بلكہ خاوند مالدارى اور تنگ دستى ميں اپنى استطاعت كے مطابق خرچ كرے " انتہى

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 634 ).

يہاں ہم ايك تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ ملازمت كرنے والى عورت كو بعض اوقات ايسا لباس چاہيے جو عام عورت نہيں استعمال كرتى؛ كيونكہ وہ ملازمت والى جگہ پر ملازمت كرنے والى دوسرى عورتوں كے سامنے نت نيا لباس زيب تن كرنا چاہتى ہے، اور يہ چيز اس كے خاوند پر اس كے حقوق ميں شامل نہيں، بلكہ يہ عورت كا حق ہے كہ وہ خود مہيا كرے، بلكہ خاوند كے ذمہ وہ لباس ہوگا جو وہ گھر ميں پہنےگى، يا پھر شرعى اور مباح تقريبات وغيرہ ميں خاوند كى اجازت سے جانے كے ليے اسے استعمال كرنا ہوتا ہے، وہ خاوند خريد كر ديگا، اور اس ميں بھى كوئى خاص مقدار مقرر نہيں كى جا سكتى، بلكہ بيوى كى طبيعت اور اس كے ماحول كے مطابق ہو گا كيونكہ ہر عورت كى طبيعت اور ماحول مختلف ہوتا ہے.

دوم:

اگر شادى كے وقت بيوى نے خاوند پر شرط ركھى ہو كہ وہ شادى كے بعد بھى ملازمت كريگى، اور خاوند نے شرط قبول كر لى تو پھر خاوند پر اسے ملازمت جارى ركھنے كى اجازت دينا واجب ہے، ليكن اگر ملازمت كى نوعيت تبديل ہو چكى ہے، يعنى وہ حرام ميں تبديل ہو جائے.

مثلا وہ غير محرم مردوں كے ساتھ مل كر ملازمت كرتى ہو، يا پھر ملازمت ہى حرام ہو مثلا سودى بنكوں ميں يا پھر انشورنش كمپنيوں وغيرہ ميں ملازمت كرنا، اور اسى طرح اگر ملازمت كے ليے سفر كى ضرورت پڑ جائے اور اس كے ساتھ جانے كے ليے كوئى محرم نہ ہو.

اس ليے اگر اس طرح كا معاملہ ہو جائے تو پھر خاوند دخل اندازى كرتے ہوئے اسے ملازمت جارى ركھنے سے منع كر سكتا ہے، اس صورت ميں يہاں شرط كى مخالفت نہيں ہو گى بلكہ خاوند كو شريعت كا تقاضا پورا كرتے ہوئے اسے ايك غير شرعى عمل سے روك رہا ہے كيونكہ شريعت نے اسے بيوى كا ذمہ دار بنايا ہے.

حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

جس كسى نے بھى كوئى ايسى شرط لگائى جو كتاب اللہ ميں نہيں تو اسے وہ شرط پورى كرنے كا كوئى حق نہيں چاہے وہ سو شرطيں بھى ہوں "

متفق عليہ.

ليكن اگر يہ امور اور اشياء ملازمت نہ ہوں تو پھر شرط پر عمل كرتے ہوئے خاوند كو اسے روكنے كا حق حاصل نہيں بلكہ شادى كے وقت جس شرط پر موافقت ہوئى تھى وہ پورى كى جائيگى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو معاہدوں كو پورا كيا كرو المآئدۃ ( 1 ).

عقبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" شرطوں ميں ان شروط كا تمہيں پورا كرنے كا زيادہ حق ہے جن كے ساتھ تم نے شرمگاہوں كو حلال كيا ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2572 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

رہا ملازمت كرنے والى بيوى كى تنخواہ كا مسئلہ تو يہ تنخواہ بيوى كا حق ہے، اس سے خاوند كو بيوى كى رضامندى كے بغير كچھ بھى لينے كا كوئى حق نہيں، يہ سب كچھ اس حالت ميں ہے جب عقد نكاح كے وقت ملازمت كى شرط ركھى گئى ہو جيسا كہ اوپر بيان بھى كر چكے ہيں.

سوم:

اگر بيوى كى ملازمت عقد شادى كے وقت مشروط نہ تھى تو اب خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ بيوى كو اس شرط پر ملازمت كرنے كى اجازت دے كہ وہ گھريلو اخراجات ميں اس كى معاونت كريگى، اور اس ميں جس پر خاوند اور بيوى اتفاق كر ليں صحيح ہے؛ كيونكہ بيوى جو وقت ملازمت ميں صرف كرتى ہے وہ خاوند كا حق تھا، اس ليے وہ اس كے مقابلہ ميں بہتر طريقہ سے معاوضہ لينے كا حق ركھتا ہے.

بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عقد نكاح كے بعد خاوند كى اجازت سے بيوى كوئى اجرت پر كام نہيں كر سكتى؛ كيونكہ اس سے خاوند كا حق فوت ہو جاتا ہے " انتہى

ديكھيں: الروض المربع ( 271 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" انسان كے ليے اپنے اہل و عيال بيوى بچوں پر معروف طريقہ سے خرچ كرنا واجب ہے، چاہے بيوى مالدار بھى ہو تو بھى اس كا نان و نفقہ خاوند پر واجب ہے، اور اگر عقد نكاح ميں شرط ركھى ہو كہ وہ تعليم ديتى اور ٹيچنگ كرتى ہے اور شادى كے بعد خاوند اسے نہيں روكےگا تو اس ميں شامل ہے، اور خاوند كو بيوى كى تنخواہ لينے كا حق نہيں ہوگا، بلكہ اس ميں سے آدھى يا كچھ بھى تنخواہ كا حصہ لينے كا حقدار نہيں.

كيونكہ جب بيوى نے شادى سے پہلے شرط ركھى ہے تو پھر يہ تنخواہ بيوى كا حق ہے اور وہ اسے ملازمت كرنے سے منع نہيں كر سكتا، اور نہ ہى اسے اس كى تنخواہ لينے كا حق ہے يعنى وہ تنخواہ ميں سے كچھ بھى نہيں لے سكتا، كيونكہ تنخواہ بيوى كا حق ہے.

ليكن اگر عقد نكاح ميں ملازمت كى شرط نہيں ركھى گئى، اور شادى كے بعد بيوى كو خاوند ٹيچنگ اور ملازمت سے روك دے تو يہاں خاوند اور بيوى كو حق ہے كہ وہ دونوں ملازمت جارى ركھنے كى صورت ميں كوئى اتفاق كرليں، مثلا خاوند كہے كہ ميں اس شرط پر تمہيں پڑھانے كى اجازت ديتا ہوں كہ تم مجھے آدھى يا تيسرا يا چوتھا حصہ تنخواہ ديا كروگى، جس پر ان كا اتفاق ہو جائے اس پر عمل كيا جائيگا.

ليكن جب شادى سے قبل شرط ركھى گئى اور خاوند نے شرط قبول كر لى تو پھر خاوند كو شادى كے بعد بيوى كو روكنے كا حق نہيں، اور نہ ہى وہ بيوى كى تنخواہ سے كچھ لے سكتا ہے " انتہى

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 6 / 143 -144 ).

چہارم:

ہم خاوند اور بيوى كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى ازدواجى زندگى كو تجارت ميں دو شريكوں كى طرح حساب و كتاب كر كے مكدر اور اجيرن نہ بنائيں! بلكہ وہ تو ايك اسلامى خاندان كى تاسيس ميں ايك دوسرے كے شريك ہيں، ان كى شراكت تجارتى نہيں، بلكہ ايك گھرانہ بنانے ميں شراكت ركھتے ہيں.

اس ليے خاوند اور بيوى ميں اس طرح كے اختلافات كى كوئى گنجائش نہيں، اور نہ ہى انہيں ايسے اختلافات كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، چنانچہ عورت راضى و خوشى اپنا مال خرچ كر كے زندگى كے معاملات ميں خاوند كى معاونت كرتى رہے، اور اسى طرح خاوند كو بھى بقدر استطاعت بيوى كا مال لينے سے اجتناب كرنے كى كوشش كرنى چاہيے؛ كيونكہ يہ مرد كى قواميت و نگران ہونے پر سلبى اثر كا باعث بنتى ہے، اس ليے كہ اللہ تعالى نے بيوى پر خرچ كرنے كو مرد كى قواميت ميں شامل كيا ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

مرد عورتوں پر نگران ہيں اس ليے كہ اللہ نے بعض كو بعض پر فضيلت دى ہے، اور اس ليے كہ انہوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں النساء ( 34 ).

بيوى گھريلو اخراجات ميں خاوند كى جو معاونت كرتى ہے، اور خاوند كو جو رقم بطور قرض ديتى ہے مرد كو اس ميں فرق كرنا چاہيے، پہلى چيز يعنى بيوى جو گھريلو اخراجات ميں اپنى مرضى سے خاوند كى معاونت كرتى ہے اسے اس كا مطالبہ كرنے كا حق نہيں، كيونكہ اس نے اپنى مرضى سے خرچ كيا ہے، لہذا اس كو رجوع كا حق نہيں، ليكن جو بطور قرض ديا ہے وہ اس كا مطالبہ كر سكتى ہے.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" آپ اپنى بيوى كى رضا و خوشى سے اس كى تنخواہ ليں تو اس ميں كوئى حرج والى بات نہيں، اور اسى طرح ہر وہ چيز جو بيوى نے بطور تعاون كيا ہو آپ كے ليے اسے لينے ميں كوئى حرج نہيں؛ ليكن شرط يہ ہے كہ بيوى نے اپنى خوشى و رضامندى سے كيا ہو اور وہ عقل و رشد ركھتى ہو.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ النساء كے ابتدا ميں فرمايا ہے:

تو اگر وہ اس ميں سے تمہيں اپنى خوشى سے كچھ دے ديں تو تم خوشى سے كھاؤ .

چاہے يہ رسيد كے بغير ہى ہو، ليكن اگر آپ كو اس كے خاندان والوں سے كسى قسم كا خدشہ ہو يا بيوى كے واپس مانگنے كا ڈر ہو تو پھر آپ كے ليے اسے بطور احتياط رسيد لكھ دينى چاہيے " انتہى

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 20 / 44 ).

شيخ محمد بن مختار شنقيطى حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" خاوند كى اجازت كے بغير بيوى اجرت پر كام يا ملازمت نہيں كر سكتى.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

مرد عورتوں پر نگران ہيں النساء ( 34 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے مرد كو اپنى بيوى كے معاملات اور امور سرانجام دينے كا كہا ہے.

اس ليے خاوند كو متنبہ رہنا چاہيے؛ كيونكہ خاوند اپنى رعايا كا ذمہ دار ہے اور اس نے اس كے بارہ ميں اللہ كو جواب بھى ديا ہے، اور بيوى اس كى رعايا ميں شامل ہوتى ہے، لہذا اگر خاوند ديكھے كہ بيوى كى ملازمت كرنے ميں ہى مصلحت پائى جاتى ہے تو وہ اسے اجازت دے اور اس ميں اس كى معاونت بھى كرے، خاص كر اس دور ميں كتنى ہى نيك و صالح عورتيں تعليم و تربيت كے ليے كام كرتى ہيں جس ميں امت كا بھى بھلا ہے اور اس كا اپنا بھى! مردوں كو عورتوں كے حقوق ميں ظلم كا برتاؤ نہيں كرنا چاہيے، اور نہ ہى وہ ان پر ظلم كريں اور ان كے حقوق ضائع بھى مت كريں.

اور جب ديكھے كہ بيوى كو ملازمت سے روكنا اور منع كرنا بيوى كے ليے بہتر ہے، تو وہ روك دے، تو ميں عورت كو يہى نصحيت كرتا ہو كہ خاوند كى اطاعت كرتے ہوئے ملازمت مت كرے، اس اللہ كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں جو عورت بھى اللہ سبحانہ و تعالى اور يوم آخرت پرايمان ركھتى اور اپنے خاوند كى اطاعت كرتى اور بات مانتى ہے، خاص كر جب خاوند ميں غيرت پائے اور خير و بھلائى كى محبت ديكھتى ہو، تو وہ اللہ سبحانہ و تعالى سے اجروثواب كى نيت ركھتے ہوئے خاوند كى بات مان لے تو اللہ سبحانہ و تعالى ايسى عورت كى دنيا و آخرت ميں آنكھيں ٹھنڈى كر دےگا.

اس عورت كو چاہيے كہ وہ راضى رہے اور اطاعت كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى كى حكم عدولى مت كرے، بلكہ اس كے حكم پر راضى ہو كر اس پر مطمئن ہو رہے، كيونكہ جو راضى رہتا ہے رضا اسے ہى حاصل ہوتى ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے سمع واطاعت كرنے والے كے ليے تو دنيا و آخرت ميں فلاح و كاميابى كا وعدہ كر ركھا ہے، اور يہ كاميابى دين و دنيا اور اور آخرت سب كو شامل ہے.

عورت اپنا حال ديكھے كيونكہ جو وقت اور گھڑى اور دن وہ اپنے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى ميں گزارتى ہے تو وہ خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى ميں خير عظيم پائيگى جس كا علم اللہ عزوجل كو ہى ہے.

بہت سارے واقعات ہمارے سامنے ہيں كہ نيك و صالح عورتوں كو ان كے خاوندوں نے حكم ديا اور انہوں بلا چوں و چران تسليم كر ليا، اور كسى كام سے روكا تو وہ رك گئيں اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اس امر اور نہى ميں ان كے ليے خير عظيم پيدا كر دى جس كا علم صرف اللہ كو ہى ہے!

اور عورت كے گھر سے نكلنے ميں كتنا ہى فتنہ انتطار ميں رہتا كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس كے خاوند كو بيوى پر مسلط كر ديتا ہے اور وہ اسے جانے سے روك ديتا، جب وہ باہر جانے سے رك جاتى ہے تو فتنہ سے بچ جاتى ہے.

ہو سكتا ہے وہ جاتى تو خود بھى گمراہ ہوتى اور دوسروں كو بھى گمراہ كر ديتى، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے اس پر اپنا رحم و كرم كرتے ہوئے اسے سمع و اطاعت كى توفيق سے نواز ديا تو وہ بچ گئى؛ يہ تو مجرب چيز ہے " انتہى

ماخوذ از: شرح زاد المستقنع للشيخ شنقيطى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب