سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا سودی قرضہ لینے کے بعد اسے زکاۃ کے مال سے ادا کیا جاسکتا ہے؟

185237

تاریخ اشاعت : 21-09-2013

مشاہدات : 6266

سوال

اللہ تعالی مجھے معاف فرمائے میں نے مکان کی خریداری کیلئے سودی قرضہ لیا تھا، اب میں اپنے اس قرض کو چکانے کیلئے مکمل کوشش کر رہا ہوں، اس سلسلے میں میرا ایک رشتہ دار مجھے قرضہ دیا کرتا تھا، اب اس نے مجھے قرضہ دینا بند کردیا ہے اس لئے کہ میں اس سے قرض لیکر سودی قرض ادا کررہا ہوں، کیا یہ صحیح ہے؟ اسکا کہنا ہے کہ اگر میں تمہاری اس معاملے میں مدد کرونگا تو اس پر اسے سزا ملے گی، اسوقت میری بہت کشیدہ حالت ہے میں اپنے قرض کی ادائیگی کیلئے ذہنی تناؤ کا شکار ہوں، تو کیا میرے رشتہ دار کو میری اس سلسلے میں امداد کرنے پر بھی سزا ملے گی کہ میں اپنا سودی قرض اس سے نیا قرض لیکر اتار رہا تھا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں

پہلی بات:

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکو معاف فرمائے، اور آپ سے درگزر بھی فرمائے، اس لئے کہ سود کبیرہ گناہ ہے، اس کے بارے میں ایسی وعیدیں آئیں ہیں جو کسی اور گناہ کے بارے میں نہیں آئیں، فرمانِ باری تعالی ہے: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ . فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ ) ترجمہ:"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور اگر تم مؤمن ہو تو باقیماندہ تمام سود چھوڑ دو، اگر تم نے ایسے نہیں کیا تو پھر اللہ اور اسکے رسول سے اعلانیہ جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ" البقرة/278-279 ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، کھِلانے والے، لکھنے والے، اور گواہوں تمام پر لعنت فرمائی ہے، اور کہا کہ : یہ تمام گناہ میں برابر کے شریک ہیں) مسلم (1598)

سودی لین دین کرنے والے سے متعلق سوال نمبر (60185) اور (141948) کے جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔

دوسری بات:

اگر آپ نے سودی لین دین سے سچی توبہ کر لی اور اس کو دوبارہ نہ کرنے کا عزم ندامت کیساتھ کرلیا ہے اور نظام کے مطابق آپکی کی خلاصی مکمل سود کی ادائیگی کے بعد ہی ہوگی تو اس صورت میں آپکے رشتہ دار کیلئے مدد کرنا منع نہیں ہے، اور اس پر کوئی گناہ بھی نہیں ہے؛ اس لئے کہ اس میں آپکی تکلیف کشائی ہے، اور فرمانِ رسالت ہے کہ: (جس شخص نے کسی مسلمان کی ایک تکلیف رفع کی اللہ تعالی اسکی قیامت کے تکالیف میں سے ایک تکلیف دور کرے گا) بخاری (2442) مسلم (2580)، ویسے بھی آپکے قرض کی ادائیگی جسقدر تاخیر سے ہوگی، اسی طرح قرض پر سود بھی بڑھتا جائے گا،جبکہ سودی لین دین سے تائب شخص کی مدد کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، اور نہ ہی کسی شکل میں گناہ پر مدد ہے، اس لئے کہ کنگال ، ضرورت مند اور محتاج مقروض شخص کو زکاۃ کا مال دیا جاسکتا ہے۔

اہل علم نے اس بارے میں وضاحت کی ہے کہ حرام قرضہ اٹھانے والا شخص اگر اللہ سے توبہ کرلے تو اسے قرض اتارنے کیلئے زکاۃ کا مال دیا جاسکتا ہے، چنانچہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"مسئلہ: جس نے حرام کام کیلئے قرض لیا، کیا ہم اسے زکاۃ دے سکتے ہیں؟ جواب: اگر توبہ کرلے تو زکاۃ دینگے، ورنہ نہیں، اس لئے کہ بغیر توبہ کی حالت میں یہ حرام کام کرنے پر اسکی مدد شمار ہوگا، اس لئے اگر اسے اب تعاون کیا گیا تو وہ دوبارہ بھی لے گا" انتہی "الشرح الممتع" (6/235)

ڈاکٹر عمر سلیمان الاشقر کہتے ہیں: "جس نے سودی قرض لیا ایسے شخص کو مقروض لوگوں کی مَد میں زکاۃ کا مال نہیں دیا جاسکتا ، ہاں اگر سودی لین دین سے توبہ کرلے تو دیا جاسکتا ہے"انتہی "ابحاث الندوۃ الخامسۃ لقضايا الزكاة المعاصرة"صفحہ (210)

وا للہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب