سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا سودى قرض كى ادائيگى ہو گى

9700

تاریخ اشاعت : 06-04-2005

مشاہدات : 6012

سوال

ميں نے حكومت سے تعليمى اخراجات كے ليے سٹوڈنٹ قرض حاصل كيا تھا، اور اس وقت ميں اسلامى تعليمات پر كاربند نہيں تھا، ليكن اب اسلامى تعليمات پر عمل پيرا ہوں مجھے علم ہے كہ ميرا وہ عمل غلط تھا، ميرى سوچ يہ تھى كہ تعليم مكمل كرنے كے بعد ميں قرض ادا كردوں گا، ليكن ان آخرى ايام ميں مجھے كچھ بھائى ملے اور كہنے لگے كہ علماء كرام نے فتوى ديا ہے كہ: وہ سب لوگ جو يورپى ممالك ( كينڈا ) ميں ہيں اور ان كے ذمہ حكومتى قرض ہيں انہيں وہ قرضہ ادا نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ يہ حكومتيں ہمارے شيشانى بھائيوں كے خلاف جنگ كرنے كے ليےمال ديتى ہيں، تو كيا يہ صحيح ہے ؟
اس كے ساتھ ميرى گزارش ہے كہ آپ يہ وضاحت فرمائيں كہ مجھے اپنے قرضے كے متعلق كيا كرنا چاہيے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس اللہ سبحانہ وتعالى كى تعريف اور شكر ہے جس نے آپ كو حق كى ہدايت اور دين اسلام پر كاربند ہونے كى توفيق بخشى، كيونكہ يہ مسلمان بندے پر اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے سب سے بڑى نعمت ہے.

دوم:

اگر تو قرض سود يعنى ادايئگى كے وقت زيادہ پر مشتمل ہے تو پھر يہ قرض حرام ہے اور اسے جارى ركھنا جائز نہيں.

اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى كا ڈر اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم پكے اور سچے مومن ہوالبقرۃ ( 278 )

اور اگر اس معاہدے كو ختم كرنا ممكن ہو تو آپ پر واجب ہے كہ اس كو ختم كرديں.

سوم:

اس فعل پر آپ كو توبہ و استغفار اور ندامت كا اظہار كرنا چاہيے، اور اس بات كا عزم كريں كہ آئندہ اس طرح كے كام دوبارہ نہيں كريں گے، اور آپ كے ليے خوشخبرى ہے كيونكہ جب بندہ توبہ كرتا ہے تو اللہ تعالى اپنے بندے كى توبہ قبول كرتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" گناہوں سے توبہ كرنےوالا شخص ايسے ہى ہے جيسے كسى كے كوئى گناہ نہ ہوں" سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 4250 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجۃ حديث نمبر ( 3427 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

چہارم:

جب آپ كے ذمہ قرض ثابت ہو چكا ہو تو اس كى ادائيگى كرنا واجب ہے، اور اگر آپ اس كى استطاعت ركھتے ہيں كہ زيادہ اور سود نہ ديں اور ايسا كرنے ميں آپ كو كوئى نقصان اور ضرر يا فساد نہ ہو تو پھر يہ زيادہ نہ دينا واجب ہے، كيونكہ آپ كے ليے سود دينا جائز نہيں.

" اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے والے اور سود كھلانےوالے اور اسے لكھنے اور اس كى گواہى دينے والے پر لعنت فرمائى اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں" صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).

( سود كھانے والا ) يہ سود لينے والا ہے.

( سود كھلانے والا ) يہ سود دينے والا ہے.

اور جب آپ يہ زيادہ ( سود ) دييے بغير چھٹكارا نہيں تو پھر مجبورا اور اسے دلى طور پر ناپسند كرتے ہوئے ادا كريں، اوراللہ تعالى كسى نفس كو اس كى طاقت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا، اور ان شاء اللہ اس پر ندامت اور اس سے توبہ آپ كو كافى ہو گى.

پنجم:

جس نے يہ كہا ہے كہ: يہ حكومتيں شيشان كے خلاف جنگ كرنے ميں مال صرف كرتى ہيں، يہ معاملہ ثبوت كا محتاج ہے، اور اگر ثابت بھى ہو جائے تو اس كا يہ معنى نہيں كہ اس كے سارے معاملات حرمت ميں داخل ہوتے ہيں، بلكہ جس ميں باطل يا پھر مسلمانوں كے خلاف جنگ ميں معاونت ہوتى ہو جيسا كہ سائل نے ذكر كيا ہے، يا پھر كسى شرعى ممانعت ميں معاونت ہوتى ہو پھر اس ميں تعاون كرنا اور داخل ہونا جائز نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب