الحمد للہ.
عربی زبان میں سود پر بولا جانے والا لفظ "الربا"کسی مخصوص چیز میں اضافے کو کہتے ہیں، یہی اضافے کا معنی فرمانِ باری تعالی میں بھی ہے:
(وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ)
ترجمہ: اور تم جو کچھ بھی [سودی قرضہ] دو تا کہ وہ لوگوں کے مال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ تعالی کے ہاں نہیں بڑھے گا۔
سود کی حقیقت یہ ہے کہ دور جاہلیت میں جب کسی پر قرضہ ادا کرنے کا وقت آ جاتا تھا تو اس سے قرض خواہ کہتے تھے: ہمیں ہمارے ایک سو واپس کر دو ، یا [آئندہ محدود مدت کے] بعد ایک سو پچاس دے دینا، پھر جب ایک سو پچاس دینے کا وقت آتا تو پھر کہتے [آئندہ محدود مدت کے] بعد ہمیں دو سو دے دینا۔
شریعت نے سود کی ایک اور قسم کو بھی حرام قرار دیا اور وہ ہے "ربا الفضل" اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ: ایک ہی جنس کی چیز کا تبادلہ کمی بیشی کر کے کرنا ، مثلاً: سونے کو سونے کے ساتھ فروخت کیا جائے تو نقد و نقد اور برابر سرابر فروخت کرنا ہو گا، کمی بیشی یا ادھار اس میں جائز نہیں ہے، اگر کوئی ایسے کرتا ہے تو یہ سودی لین دین ہو گا، اسی طرح اگر کوئی شخص ایک صاع گندم کو دو صاع گندم سے فروخت کرے چاہے نقد و نقد ہی کیوں نہ ہو پھر بھی سود ہوگا۔
پیسے کی گردش کے اصول کا جہاں تک معاملہ ہے تو یہ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں موجود ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ پیسے کو گردش میں رکھتے ہیں تا کہ اس میں اضافہ ہو ، اسی طرح وہ قرضے بھی فراہم کرتے ہیں لیکن اس کیلیے ادائیگی کے وقت شرط یہ ہوتی ہے کہ وصول کردہ رقم سے زیادہ واپس کرنا ہوتی ہے اور یہ سود ہے۔
پیسے کی گردش کوئی غلط اصول نہیں ہے بلکہ اگر رأس المال تجارت میں لگا کر اسے گردش میں رکھا جائے اور منافع مالک اور محنت کرنے والے میں تقسیم ہو جیسے مضاربت بھی کہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ رأس المال اور منافع کو الگ الگ کرنا ممکن ہو۔
لیکن اگر مضاربت کی رقم کو بینکوں میں رکھ کر سودی منافع لیا جائے تو اسے کھانا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ایسے بینکوں کے ساتھ لین دین کرنا چاہیے، ایسا سودی قرض دینا بھی جائز نہیں ہے، نیز ایسی کرنسی میں ادائیگی قبول کرنا بھی جائز نہیں ہے جس کی وجہ سے سودی لین دین میں معاونت ہو، البتہ ضرورت کے وقت ان کرنسیوں (ڈالر وغیرہ)کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ اس سے متعلقہ ملک کی اقتصادی معاونت ہو گی ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈالر بہت سے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں مقبول ہے، اس لیے ضرورت کے وقت ان میں لین دین جائز ہو گا، لیکن اگر اسلامی کرنسی موجود ہو اور وہ قابل قبول بھی ہو تو پھر غیر اسلامی کرنسی کو چھوڑ دینا چاہیے" انتہی
واللہ اعلم.