سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

والدہ نے اپنی زندگی میں اپنے بعض بچوں کو اپنی کچھ دولت دی ہوئی تھی اب والدہ فوت ہو چکی ہے۔

سوال

میری والدہ کچھ عرصہ قبل ہی فوت ہوئی ہیں، اللہ تعالی سے دعا کہ انہیں جنت نصیب فرمائے، ان کی وراثت میں کافی پراپرٹی ہے، اور بینک اکاؤنٹ میں نقدی رقم بھی ہے، وارثین میں 5 بیٹے اور ایک بیٹی ہے، میری والدہ کے نام 7 عمارتیں ہیں، انہوں نے اپنی زندگی میں 3 بچوں بیٹی اور 2 بیٹوں کو ایک ایک عمارت دے دی تھی، ان میں سے ایک بیٹے نے والدہ کی زندگی میں ہی اپنی عمارت فروخت کر دی، اس طرح اب والدہ کی ملکیت میں 6 بلڈنگیں رہ گئیں، اب میرا سوال یہ ہے کہ: چونکہ والدہ محترمہ نے اپنے تمام بچوں کو بلڈنگ نہیں دی تھی جیسے کہ ان تین بچوں کو دی تھی، تو کیا اب اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ساری کی ساری 6 بلڈنگیں ترکہ میں شمار ہوں گی؟ اور ان کے متعلق یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ یہ کس کی ملکیت میں ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر اس بیٹے کے بارے میں کیا کریں گے جس نے اپنی بلڈنگ فروخت کر دی ہے، میرے دو بھائیوں کے میری والدہ کے ساتھ ایک مشترکہ بینک اکاؤنٹ بھی ہے، انہوں نے والدہ کے اس مشترکہ اکاؤنٹ سے رقم نکلوائی لیکن وفات کے بعد واپس جمع نہیں کروائی، تو کیا انہیں یہ رقم بھی ترکہ میں شامل کرنے کے لیے واپس کرنا ہو گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

والدین اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی ہو شرعی گنجائش کے بغیر خصوصی تحفہ نہیں دے سکتے، چنانچہ اگر والدین کسی کو دینا چاہیں تو ان پر لازم ہے کہ دیگر بچوں کو بھی اتنا ہی تحفہ دیں، یا پھر کسی کو بھی نہ دیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22169 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

جب میت فوت ہو گئی تو عطیہ نا حق طور پر وصول کرنے والی اولاد پر لازم ہے کہ اس عطیہ کو واپس ترکہ میں شامل کرے، یا پھر اسے وراثت کے اپنے حصے میں شامل کروائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کے دو اقوال میں سے صحیح ترین موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف اپنی بیٹیوں کو کوئی عطیہ دے، لیکن اس جنین کو کچھ نہ دے جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہے تو اس پر لازم ہے کہ بیٹیوں کو دیا ہوا عطیہ اپنی زندگی میں ہی واپس کر لے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی حکم دیا ہے۔ اور اگر وہ واپس لیے بغیر فوت ہو جاتا ہے تو یہاں بھی علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق اس عطیہ کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل میں واپس کیا جائے گا، یہی اس عدل کا تقاضا بھی ہے جس کا اولاد کو تحائف دیتے ہوئے خیال رکھنے کا حکم بھی دیا ہے، نیز یہی طریقہ کار سیدنا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی اقتدا کا باعث بھی ہو گا، مزید برآں یہ بھی ہے کہ اولاد میں سے جس کو حق سے زیادہ دیا گیا ہے اس کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ زیادہ مال پر قبضہ کر لے؛ بلکہ اسے چاہیے کہ اضافی مال کو اپنے بہن بھائیوں میں اللہ تعالی کے حکم کے مطابق عدل سے تقسیم کر دے۔" ختم شد
" الفتاوى الكبرى " (4/184)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"درست بات یہ ہے کہ جب اپنی اولاد میں سے کچھ کو زیادہ دینے والا والد فوت ہو گیا تو زیادہ لینے والی اولاد پر لازم ہے کہ حق سے زیادہ وصول شدہ دولت کو واپس ترکہ میں شامل کرے، اگر وہ نہیں کرتا تو اگر وراثت میں حصہ بنتا ہو تو اس کی وراثت میں شامل کر کے تصفیہ کر لیا جائے ؛ کیونکہ فوت ہونے والے والد کی ذمہ داری تھی کہ اولاد کے مابین عدل سے کام لیتا، جب والد نے عدل سے کام نہیں لیا اور فوت ہو گیا تو والد کی حیثیت اب مقروض جیسی ہو گئی ، اور قرضہ اتارنا واجب ہوتا ہے، اس لیے اضافی حصہ لینے والی اولاد سے ہم کہیں گے کہ اگر تم اپنے والد سے ان کی وفات کے بعد نیکی کرنا چاہتے ہو تو تمہارے والد نے جو تمہیں اضافی حصہ دیا تھا اسے واپس ترکہ میں شامل کر دو۔" ختم شد
" الشرح الممتع" (11/ 85)

اس بنا پر:

یہ تینوں بہن بھائی جنہیں والدہ نے ان کے حصے سے بڑھ کر اضافی دے رکھا تھا اور ہر ایک کو ایک ایک بلڈنگ دی ہوئی تھی ان سب پر لازم ہے کہ تینوں بلڈنگیں واپس ترکہ میں شامل کریں، اور پھر سارے کا سارا ترکہ وارثوں میں تقسیم کیا جائے۔

اب چونکہ ایک بیٹے نے اپنے حصے کی بلڈنگ فروخت کر دی ہے تو اس بلڈنگ کو بیٹے کو ملنے والی وراثت میں شامل کر کے تصفیہ کیا جائے گا۔

تاہم ایک صورت یہ ہے کہ جس بیٹے کو بلڈنگ دی گئی تھی اور پھر اس نے بلڈنگ فروخت کر دی ، اگر اس نے اپنی غربت اور حاجت مندی کی وجہ سے اسے فروخت کیا تو پھر یہ بلڈنگ ترکہ کی تقسیم میں شامل نہیں ہو گی؛ کیونکہ والد اپنی اولاد میں سے صرف ضرورت مند اور حاجت مند کو عطیہ دے سکتا ہے۔

لیکن اگر فروخت کنندہ بیٹا صاحب حیثیت تھا تو پھر یہ بلڈنگ اس کی وراثت میں شامل کی جائے گی۔

یہ بات ان دو بھائیوں کے بارے میں بھی کہی جائے گی جنہوں نے والدہ کے بینک اکاؤنٹ سے رقم نکلوائی؛ چنانچہ اگر یہ رقم انہوں نے اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نکلوائی تھی اور والدہ بھی راضی تھی تو پھر اس رقم کو ان کے ترکہ میں شمار نہیں کیا جائے گا، لیکن اگر وہ اس رقم کو اپنی بنیادی ضروریات کی بجائے کسی اور چیز میں خرچ کر رہے ہوں، یا انہوں نے یہ رقم والدہ کے علم اور رضا مندی میں لائے بغیر نکالی ہو تو پھر یہ رقم والدہ کا حق ہے اور ان پر قرض ہے، چنانچہ اس رقم کو ان کے وراثت والے حصے میں شامل کیا جائے گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب