اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تحفہ دیتے وقت اولاد کے مابین برابری نہ کرنے کا حکم

22169

تاریخ اشاعت : 29-03-2004

مشاہدات : 17510

سوال

کیامیرے لیے اولاد میں سے خاص کسی ایک کوتحفہ دینا جائز ہے کہ اس کے دوسرے بھائیوں کوتحفہ دوں ، اوراگر یہ تحفہ اس کے حسن اخلاق اوریا پھر والدین کی اطاعت کی بنا پرہوتوکیا حکم ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اما بعد :

علماء کرام کا اتفاق ہے کہ تحفہ وھدیہ دیتے ہوئے اولاد کے مابین عدل وانصاف اوربرابری کرنا مشروع ہے ، لھذا اولاد میں سے کسی ایک کوخصوصا ھدیہ دینا اورباقی کونہ دینا جائز نہيں ہے ۔

ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب المغنی میں کہا ہے :

برابری کرنے کے استحباب اورکسی ایک کودوسرے سے افضلیت دینے کی کراہت میں اہل علم کے مابین کوئي اختلاف نہیں پایا جاتا ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 5 / 666 ) ۔

اولاد کے مابین تفضيل کے حکم میں علماء کرام کے کئي ایک اقوال ہیں جن میں سے دلائل کے لحاض سے دو قول قوی معلوم ہوتے ہیں ( واللہ اعلم ) انہیں ذيل میں ذکرکیا جاتا ہے :

پہلا قول :

اولاد کے مابین تفضیل مطلقا حرام ہے یعنی اولاد میں سے کسی ایک بچے کوھدیہ دینے میں افضلیت دینا مطلقا حرام ہے ، اورحنابلہ کے ہاں مشہور مسلک بھی یہی ہے ۔

دیکھیں : کشاف القناع ( 4 / 310 ) اورالانصاف ( 7 / 138 ) ۔

اورظاہریوں کا بھی یہی مذھب ہے ( یعنی یہ تفضیل کسی سبب کے ہویا بغیر کسی سبب کے ) ۔

دوسرا قول :

اولاد کے مابین تفضیل حرام ہے ، لیکن اگر کوئي شرعی سبب ہوتو پھر جائز ہے ، امام احمد سے ایک روایت یہ بھی ہے ۔

اورابن قدامہ اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے

دیکھیں : الانصاف ( 7 / 139 ) اور المغنی ( 5 / 664 ) مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ( 31 / 295 ) ۔

فریقین نے اولاد میں تفضیل کی حرمت پرامام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے :

نعمان بن بشیر رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اورکہنے لگے : میں نے اپنا غلام اپنے اس بیٹے کودے دیا ہے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کیا آپ نے اپنے سب بچوں کواسی طرح دیا ہے ؟ توانہوں نے کہا نہيں ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : آپ اس سے وہ غلام واپس لے لیں ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2586 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 ) ۔

اورایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :

نعمان بشیر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ : میرے والد نے مجھ پراپنا کچھ مال صدقہ کیا تومیری والدہ عمرہ بنت رواحۃ کہنے لگی کہ میں اس پراس وقت تک راضي نہیں ہو‎ؤنگی جب تک آپ اس پرنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوگواہ نہ بنادیں ، تومیرے والد نبی مکرم صلی اللہ علیہ کے پاس گئے تا کہ انہیں میرے صدقہ پرگواہ بنا سکیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :

کیا تونے اپنے ساری اولاد کے ساتھ ایسے ہی کیا ہے ؟ توانہوں نے جواب نفی میں دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اللہ تعالی سے ڈرو اوراپنی اولاد کے بابین عدل وانصاف سے کام لو ، میرے والد نے واپس آکر وہ صدقہ واپس لے لیا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2587 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 )۔

اورمسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے بشیر کیا آپ کے اس کے علاوہ اوربھی بچے ہیں ؟ توانہوں نے جواب دیا جی ہاں ، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

کیا آپ نے ان سب کوبھی اسی طرح مال ھبہ کیا ہے ؟ وہ کہنے لگے : نہیں ، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھرمجھے گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم وجور پر گواہ نہيں بنتا ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 ) ۔

حدیث سے کئي ایک اعتبارسے دلالت ہورہی ہے :

اول : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عدل وبرابری کرنے کا حکم دیا اورامروجوب کا تقاضا کرتا ہے ۔

دوم : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان فرمانا کہ اولاد میں سے باقیوں کوچھوڑتے ہوئے صرف ایک کوتفضیل دینا ظلم وانصافی ہے ، اس کے ساتھ اضافہ یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دینے سے انکار کردیا اوراس سے وہ عطیہ واپس لینے کا کہنا یہ سب کچھ تفضیل کی حرمت پردلالت کرتا ہے ۔

ان اقوال کے قائلین نے عقلی دلائل سے بھی استدلال کیا ہے جن میں سے چندایک کوذیل میں ذکرکیا جاتا ہے :

حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب فتح الباری میں ذکر کیا ہے کہ :

جس نے اسے واجب قرار دیا ہے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ : یہ واجب کے مقدمات وابتدایات میں سے ہے ، اس لیے کہ قطع رحمی اورنافرمانی دونوں ہی حرام کام ہیں جوحرام کام تک لےجانے کا سبب بنے وہ بھی حرام ہے ، اورتفضیل بھی اسی حرام کام تک جانے کا سبب ہے ۔

دیکھیں : فتح الباری شرح صحیح بخاری ( 5 / 214 ) ۔

اس کی تائيد مسلم کی روایت کے الفاظ بھی کرتے ہیں :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس پرمیرے علاوہ کسی اورکوگواہ بنا لو ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تویہ پسند کرتا ہے کہ وہ سب تیرے ساتھ حسن سلوک اورصلہ رحمی میں برابری کریں ، وہ کہنے لگے کیوں نہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : توپھر ایسا بھی نہيں ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1623 ) ۔

اوراس کی حرمت کے دلائل میں یہ بھی ہے کہ : اولاد میں سے کسی ایک کودوسرے سے بہترجاننے اور تفضیل سے ایک دوسرے کے مابین بغض وعداوت نفرت پیدا ہوگي ، اوران کے اوروالد کے مابین بھی یہی چيز پیدا ہوگي لھذا اس سے منع کردیا گیا ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 5 / 664 ) یہ بھی پہلے معنی جیسا ہی ہے ۔

دوسرے قول کے قائلین نے کسی مصلحت وحاجت یا پھر عذر کی بنا پرتفضیل کوجائز قرار دیا ہے اورامام مالک کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے :

امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب موطا میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نےانہیں غابہ نامی جگہ کی کجھوروں میں سے بیس وسق کھجوریں عطیہ کيں اور جب انہیں موت آنے لگی توانہوں نے فرمایا :

میری بیٹی اللہ کی قسم مجھے لوگوں میں سے سب سے زيادہ اچھا اورپسند یہ ہے کہ تم میرے بعد غنی اورمالدار رہو، اورمیرے بعد تیرا فقر میرے لیے سخت تکلیف دہ ہے ، اگر توان کھجوروں کولے کراپنے قبضہ میں کرلیتی تووہ تیری تھیں ، لیکن آج وہ مال وارثوں کا ہے جوکہ تیرے دوبھائي اوردوبہنیں ہیں لھذا اسے کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کرلینا ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے میرے اباجان اللہ کی قسم اگر ایسے ایسے ہوتا تو میں اسے بھی ترک کردیتی ، ایک بہن تواسماء ہے اوردوسری کون ہے ، توابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ بنت خارجہ کے بطن میں ہے اورمیرے خیال میں وہ لڑکی ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اپنی مایہ ناز کتاب فتح الباری میں کہتے ہیں : اس کی سند صحیح ہے دیکھیں فتح الباری ( 5 / 215 ) ۔

اس سے وجہ الدلالت وہی ہے جوابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کی ہے ، وہ کہتے ہیں :

اس کا احتمال ہے کہ ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوان کی ضرورت کے پیش نظر کوئي خاص عطیہ دیا ہو کیونکہ وہ کمانے سے عاجز تھیں ، اس لیے بھی کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوخصوصیت اورفضیلت حاصل تھی کہ وہ ام المومنین بھی تھیں اوراس کے علاوہ بھی انہيں کئي ایک فضائل حاصل تھے ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 5 / 665 ) کچھ کمی وبیشی کے ساتھ ذکر کیا گيا ہے ۔

اس کے بارہ میں جواب دیا گيا ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں بھی ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے قصہ کے بارہ میں عروہ کا کہنا ہے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بھائي اس عطیہ پرراضي تھے ۔ فتح الباری ( 5 / 215 )

دیکھیں : کتاب العدل بین الاولاد صفحہ نمبر ( 22 ) اوراس کے بعد والے صفحات یہ اقتباس کچھ کمی وبیشی کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اسے مطلقا حرام قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب اغاثۃ اللھفان میں کہا ہے :

اگر صحیح اورصریح سنت جس کا کوئي معارض نہیں میں اس سے منع نہ بھی ثابت ہوتا توپھر قیاس اوراصول شریعت اورمصلحت کے ضمن میں اورمفاسد کوروکنے کے اعتبارسے بھی اس کی حرمت کا تقاضا ہوتا تھا ۔

دیکھیں : اغاثۃ اللھفان ( 1 / 540 ) ۔

اورفضیلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے بھی اولاد کے مابین تفضيل کومطلقا منع قرار دیتے ہوئے کہا ہے :

اولاد میں سے ایک کودوسرے پر فضیلت دینی منع اوران کے مابین عدل وانصاف کرنا واجب ہے چاہے وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے ، انہیں ان کی وراثت کے مطابق ملنا چاہیے ، لیکن اگر وہ عاقل بالغ ہوتے ہوئے اس کی اجازت دے دیں تو پھر ٹھیک ہے ۔

دیکھیں : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 3 / 115 - 116 ) ۔

اورشیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

انسان کے لیے جائز نہيں کہ وہ اپنےبعض بیٹوں میں سے کسی ایک کودوسرے پرافضلیت دیتا رہے ، لیکن لڑکی اورلڑکے کےمابین افضلیت ہوگی اورلڑکی کے مقابلہ میں لڑکے کوڈبل دیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

اللہ تعالی سے ڈرو اوراپنی اولاد کے مابین عدل وانصاف کرو ۔

لھذا اگر کوئي اپنے کسی بیٹے کوسودرہم دیتا ہے اس پرواجب اورضروری ہےکہ وہ باقی بیٹوں کوبھی ایک سودرہم اوربیٹی کو پچاس درہم دے ، یا پھر جس بیٹے کواس نے سودرہم دیے ہیں اس سے واپس لے لے ، ہم نے جویہ ذکر کیا ہے وہ واجب نفقہ میں نہیں بلکہ نفقہ کے علاوہ ہے ، لیکن جونفقہ واجبہ ہے تواولاد میں سے ہرایک کواتنا ہی دیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے ۔

فرض کریں کہ اگر کوئي بیٹا شادی کرنے کا محتاج ہے تواس کی شادی کرے اوراس کا مہر بھی ادا کرے ، اس لیے کہ بیٹا مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تواس صورت میں یہ لازم نہيں آتا کہ وہ باقی بیٹوں کوبھی اس شادی کرنے والے بیٹے جتنا ہی ادا کرے کیونکہ شادی کرنا تونفقہ میں شامل ہے ۔

میں چاہتاہوں کہ یہاں پرایک مسئلہ کی تنبیہ کردوں بعض لوگ جہالت کی بنا پراس کا ارتکاب کرتے رہتےہيں : وہ اس طرح کہ ایک شخص کی اولاد ہے اس میں سے کچھ توبالغ ہیں اورشادی کی عمرکوپہنچ چکے ہیں تووہ ان کی شادی کردیتا ہے اورکچھ بچے ابھی چھوٹے ہیں لھذا وہ ان چھوٹے بچوں کے لیے وصیت کرتا ہے کہ موت کے بعد انہيں بھی اتنا مال ادا کیا جائے جتنے میں بڑوں کی شادی کی ہے ۔

ایسا کرنا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ یہ وصیت تووراث کےلیے ہوگي اوروارث کےلیے وصیت کرنی حرام ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

( یقینا اللہ تعالی نے ہر حقدار کواس کا حق دے دیا ہے لھذا وارث کے لیے کوئي وصیت نہیں ) ۔

یہ الفاظ ابوداود کے ہیں دیکھيں ابوداود حدیث نمبر ( 3565 ) اورسنن ترمذی ( 2 / 16 ) وغیرہ نے بھی نے اسے روایت کیا ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ان الفاظ والی سند کوحسن قرار دیا ہے اور( لاوصیۃ لوارث ) کے الفاظ والی روایت کوصحیح قرار دیا ہے دیکھیں ارواء الغلیل للالبانی ( 6 / 87 ) ۔

لھذا اگروہ یہ کہتا ہےکہ میں نے یہ مال ان کےلیے وصیت کردیا ہے کیونکہ اتنے مال سے میں نے ان کے بھائیوں کی شادی کردی تھی توہم اسے یہ کہيں گے کہ اگر یہ چھوٹے بچے بھی آپ کی موت سے قبل بالغ ہوجائيں اورشادی کی عمرتک پہنچ جائيں توان کی بھی اتنے مال سے شادی کردینا ، لیکن اگر وہ شادی کی عمرتک نہيں پہنچتے تو پھر آپ پران کی شادی کرنا واجب نہیں ہے ۔

دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 30 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد