جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اگر کسی نے قرآن مجید کا کچھ حصہ یاد کیا اور پھر بھول تو گیا اس کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

سوال

سوال: اگر کوئی شخص قرآن مجید کا کچھ حصہ یاد کر کے بھول جائے اور پھر بھولنے پر اللہ تعالی سے توبہ بھی کر لے تو کیا توبہ کی قبولیت کیلیے بھولی ہوئی ساری آیات یاد کرنا لازمی ہے؟ اور اگر انہیں یاد کرنا لازمی ہے تو پھر ایسی آیات کا کیا حکم ہو گا جن کے بارے میں علم ہی نہیں ہے کہ کہاں کہاں سے وہ آیات یاد کی تھیں۔
اس بارے میں جو سورتیں مکمل یاد کی تھیں ان کے متعلق کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔
اور کیا بھولی ہوئی آیات کو فوری طور پر یاد کرنا ضروری ہے یا بعد میں کسی بھی وقت فراغت ملنے پر یاد کی جا سکتی ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

قرآن مجید کی تلاوت ، حفظ، مطالعہ  یقیناً افضل ترین عمل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلسل کیساتھ قرآن مجید کی دہرائی  کیلیے ترغیب بھی دلائی ہے، چنانچہ قرآن مجید کو اسی وقت یاد رکھا جا سکتا ہے جب انسان یاد کردہ سورتوں کو بار بار پڑھے اور ان کی دہرائی کرتا رہے۔

اسی طرح قرآن مجید کو یاد کر کے بھول جانا مذموم حرکت ہے؛ کیونکہ اس کی وجہ سے قرآن مجید کیساتھ تعلق ختم اور رو گردانی لازم آتی ہے۔

دوم:

اہل علم کے قرآن مجید بھول جانے سے متعلق متعدد اقوال ہیں:

چنانچہ کچھ کا کہنا ہے کہ: قرآن مجید یاد کر کے بھول جانا کبیرہ گناہ ہے۔

کچھ کہتے ہیں کہ: معصیت اور گناہ تو ہے لیکن کبیرہ گناہ جیسا سنگین گناہ نہیں ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہ ایک مصیبت ہے جو انسان کیلیے ذاتی طور پر اور دینی لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، یا بسا اوقات  اللہ تعالی کی طرف سے کسی گناہ کی شامت بھی ہو سکتی ہے، لیکن یہ بذات خود کبیرہ گناہ نہیں ہے، اور نہ ہی عام گناہ ہے، یہ موقف سب سے اچھا موقف لگتا ہے۔

تاہم حافظ قرآن کو  تلاوت  سے غفلت نہیں برتنی چاہیے، اور نہ ہی قرآن مجید کی دہرائی میں سستی کرے، چنانچہ قرآن مجید کی یومیہ تلاوت کیلیے حصہ مقرر کرے جس سے قرآن مجید یاد رکھنے میں مدد ملے گی، اور قرآن مجید نہیں بھولے گا، تلاوت کرتے ہوئے اجر و ثواب کی امید رکھے اور احکامات پر عمل پیرا رہے۔

سوم:

قرآن مجید کی پابندی سے تلاوت نہ کی جائے اور قرآن مجید کو چھوڑ دیا جائے تو انسان اسے بھول جاتا ہے، اگرچہ چھوڑنے کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے، جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ "الفوائد" (صفحہ: 82)میں کہتے ہیں:
"قرآن مجید انسان اسی وقت بھولتا ہے جب قرآن مجید سے رو گردانی کرتے ہوئے کسی اور چیز میں مشغول ہو جائے، یقیناً یہ ایک بڑی مصیبت ہے، اور اس کی وجہ سے مزید مصیبتیں کھڑی ہو سکتی ہیں ، اور اجر و ثواب سے محرومی بھی یقینی ہے"

قرآن مجید یاد کر کے بھول جانے والے  کو جن چیزوں کی نصیحت کی جا سکتی ہے وہ درج ذیل ہیں:

- جن سورتوں کو پہلے یاد کیا تھا انہیں دوبارہ سے ازبر کرے۔

- یاد کرنے کے بعد انہیں مسلسل پڑھتا رہے مبادا دوبارہ نہ بھول جائے۔

- مزید حفظ اور دہرائی کیلیے  کسی اچھے استاد کو ضرور سنائے۔

- قرآن مجید کے جو پارے  مکمل یا تہائی ، چوتھائی اور نصف یاد کیے ہوئے ہیں ان کی دہرائی بھی کرے اور سورت مکمل کرنے کی کوشش کرے، اس طرح پہلے یاد کردہ حصے میں مزید پختگی آئے گی اور سورت مکمل کرنے کیلیے حوصلہ افزائی بھی ہوگی۔

- قرآن مجید کے دو ، دو اور تین ، تین آیات پر مشتمل چھوٹے چھوٹے حصے جنہیں یاد کیا تھا لیکن اب بھول چکا ہے ان کی تلاش نہ کرے، کیونکہ ان کی تعیین کرنا مشکل معاملہ ہے۔

لہذا قرآن مجید کے بڑے بڑے حصے جہاں سے یاد کیا تھا انہیں یاد کرے جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، اور قرآن مجید کے چھوٹے چھوٹے حصے جو بھول چکے ہیں اگر وہ دوبارہ ذہن میں نہ بھی آئیں تو  ان شاء اللہ اس پر گناہ نہیں ہوگا۔

اپنا محاسبہ کریں کہ جو گناہ سر زد ہو رہے ہیں ان سے توبہ استغفار کریں اور اگر کوئی کمی کوتاہی ہو رہی ہے تو ان کا تدارک کریں، اگر اخروی زندگی کیلیے تیاری میں دنیا کی وجہ سے کمی ہو رہی ہے تو آخرت کیلیے بھر پور تیاری کرے، کیونکہ آخرت سرمدی اور ابدی زندگی ہے۔

نیز فوری طور پر قرآن مجید کا بھولا ہوا حصہ یاد کرنا  چاہیے، چنانچہ جب بھی وقت ملے تو فوری طور پر یاد کرنا شروع کر دے، اس کیلیے کسی سستی، کاہلی اور تاخیر کا شکار نہ ہو، ابن مبارک رحمہ اللہ نے "الزهد" (1/ 469) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ:
"دلوں میں بسا اوقات بہت ہی جذبہ اور پیش قدمی پائی جاتی ہے، جبکہ بسا اوقات سستی اور کاہلی کا راج ہوتا ہے، تو ایسے میں جب بھی جذبہ اور گرم جوشی دکھائے دے تو اسے صحیح سمت میں  لگا دو، اور جب کاہلی اور سستی پائی جائے تو اس کے حال پر چھوڑ دو"

دل میں یہ احساس پیدا ہونا کہ قرآن مجید بھولا جا رہا ہے، اور اسی کوتاہی  کا احساس ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب دوبارہ یاد کرنے کا طریقہ پوچھ رہے ہیں، یہ دل میں گرم جوشی کی علامت ہے، چنانچہ جس شخص کے دل میں یہ صورت حال پیدا ہو چکی ہو تو  وہ فوری طور پر دہرائی شروع کر دے، اس میں تاخیر مت کرے۔

اور اگر گھر بار کی ضروریات پوری کرنے کیلیے ہر وقت مصروف رہتا ہے تو قرآن مجید کی دہرائی صرف فارغ اوقات میں ہی ممکن ہے  تو ایسی صورت میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب