الحمد للہ.
افزائش نسل کے ساتھ انسانیت کی بقا بھی شادی کے شرعی مقاصد میں سےہے، یہی وجہ ہے کہ تولیدی صلاحیت صرف انتہائی درجے کی ضرورت پر ہی ختم کی جا سکتی ہے۔
تاہم معین وقت کیلیے تولیدی صلاحیت کو موقوف کر دینے والی اشیا استعمال کرنا جائز ہے، جسے مانع حمل ادویات کہا جاتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا نقصان نہ ہو۔
اسی لیے اگر متعلقہ خاتون کیلیے کسی معتمد ڈاکٹر سے مانع حمل انجیکشن کی افادیت، فعالیت اور موزونیت کے بارے میں مشورہ کر لیا جائے تو یہ بہتر ہوگا۔
اسلامی فقہ اکیڈمی کی افزائش نسل کو منظم بنانے کے متعلق قرار دادوں میں ہے کہ:
"دوم : اس وقت تک مرد یا عورت کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت جڑ سے ختم کرنا حرام ہے -جسے مصنوعی بانجھ پن یا مصنوعی نامردی کہا جاتا ہے - جب تک کہ شرعی معیار کے مطابق کوئی ضرورت نہ ہو۔
سوم : دو حمل کے درمیان فاصلہ کرنے کے لیے ایسا وقتی طور پر کرنا جائز ہے ، یا جب شرعی طور پر کوئی معتبر ضرورت پیش نظر ہو تو پھر بھی وقتی طور پر حمل ٹھہرنے سے روکنا جائز ہے ، تاہم اس میں بھی خاوند اور بیوی دونوں کا مشورہ اور رضا مندی ضروری ہے بشرطیکہ اس میں کوئی نقصان مرتب نہ ہو ، اور پھر حمل روکنے کا ذریعہ بھی شرعی ہونا چاہیے ، اور ٹھہرا ہوا حمل ضائع کرنا درست نہیں ہے " انتہی
مجلۃ المجمع : شمارہ نمبر ( 4 ) جلد نمبر ( 1 ) صفحہ نمبر ( 73 )
چنانچہ اگر معتمد اطباء یہ فیصلہ کریں کہ ولادت سے زچہ کو نقصان ہو گا یا بیماری میں اضافہ ہو گا، یا حمل کی وجہ سے یا وضع حمل کی وجہ سے وفات کا خطرہ ہے تو پھر خاوند کی رضا مندی سے حمل گرانا جائز ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا گیا جس نے دس بچوں کو جنم دیا اور اب حمل کی وجہ سے اسے نقصان ہونے لگا ہے، اب وہ چاہتی ہے کہ آپریشن سے بیضہ دانی کا منہ باندھ دیا جائے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"مذکورہ آپریشن میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ کہ معتمد اطباء یہ فیصلہ کریں کہ مزید بچے پیدا کرنے سے نقصان ہوگا، لیکن یہ آپریشن خاوند کی اجازت سے ہی کیا جائےگا" انتہی
فتاوى المرأة المسلمة (5/978)
اسی طرح ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
"تولیدی صلاحیت ختم کرنے کیلیے رحم کو مکمل طور پر نکالنے کا کیا حکم ہے، یعنی مطلب یہ ہے کہ طبی اور سائنسی رپوٹوں کی بنا پر موجودہ اور مستقبل میں طبی وجوہات کی وجہ سے حمل نہ ٹھہرنے دیا جائے۔"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر واقعی کوئی ضرورت ہے تو اس میں حرج نہیں ہے، بصورتِ دیگر ایسا نہ کرنا واجب ہے؛ کیونکہ شریعت افزائش نسل کی خوب ترغیب دلاتی ہے اور امت کی افرادی قوت میں اضافے کی دعوت دیتی ہے، لیکن اگر رحم نکالنے کی سخت ضرورت ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح شرعی مصلحتوں کے پیش نظر وقتی طور پر مانع حمل ادویات دینے کی بھی اجازت ہے" انتہی
فتاوى شیخ ابن باز ( 9 / 434 )
اور شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حمل کی صلاحیت بالکل ختم کرنے یا حمل وقتی طور پر روکنے کیلیے آپریشن کرنا جائز نہیں ہے، الّا کہ کوئی سخت ضرورت ہو، اور معتمد اطباء یہ کہیں کہ ولادت کی وجہ سے کمزوری ہو جائے گی، یا بیماری بڑھ جائے گی یا زچہ کے حاملہ ہونے یا وضع حمل سے مرنے کا خطرہ ہو تو جائز ہے۔
لیکن حمل کی صلاحیت مکمل ختم کرنے یا عارضی طور پر روکنے کیلیے بھی خاوند کی اجازت ضروری ہے ، چنانچہ جیسے ہی حمل روکنے کی وجوہات زائل ہوں تو خاتون کو دوبارہ سے تولیدی صلاحیتوں کے قابل کیا جائے گا" انتہی
فتاوى المرأة المسلمة (2/977)
اس بنا پر :
اگر معتمد اطباء یہ کہیں کہ حمل کی وجہ سے آپ کی بیوی کو سخت نقصان ہو گا تو تولیدی صلاحیت ختم کرنے کی اجازت ہے۔
واللہ اعلم